سوال کی اہمیت

علم کی چابی

سوال کی اہمیت

*مولانا محمد عدنان چشتی عطّاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ جولائی 2023

کہا جاتا ہے کہ اَلْعِلمُ بَابٌ مُقْفلٌ مِفتَاحُه المْسئَلُۃ یعنی علم ایک بند دروازہ ہے اور سوال کرنا اس کی چابی ہے۔ جس طرح تالا بغیر چابی کے نہیں کھلتا اسی طرح علم کا دروازہ بغیر سوال کے نہیں کھلتا۔سوال کی اہمیت کو یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ سوال کا فائدہ صرف پوچھنے والے کو نہیں ہوتا بلکہ اس سے بے شمار لوگ فائدہ اُٹھاتے ہیں جیسے ہزاروں کی موجودگی میں کئے گئے سوال کا فائدہ بھی ہزاروں کو ہوتا ہے۔بعض اوقات ایک آدمی کا کیا ہوا سوال صدیوں تک لوگوں کی راہنمائی کرتا ہے جیسا کہ صحابَۂ کرام علیہمُ الرّضوان کے رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے کئے گئے سوالات ہمارے لئے آج بھی رہبر و رہنما ہیں۔

بے علمی کا عِلاج یاد رکھئے ! جہالت ایک بیماری ہے اور سیکھنا ، سوال کرنا اس کا علاج و شفا ہے۔ علم حاصل کرنے میں سوال کی بہت اہمیت ہے ، اس کے ذریعے جہالت سے نجات ملتی ہے۔ اسے ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے فرمان سے سمجھا جا سکتا ہے چنانچہ فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے : شِفَاءُ الْـعِیِّ السُّؤَالُ یعنی بے علمی کا عِلاج سوال ہے۔[1]

دریافت کرنا ، پوچھنا اور سوال کرنا علم میں اضافے کا بہترین ذریعہ ہے ، لہٰذا جس چیز کا علم نہ ہو اس کے متعلق اہلِ علم سے پوچھنا چاہئے۔علم کے لئے سوال کرنے سے ہرگز ہرگز شرمانا نہیں چاہئے ، نہ ہی یہ سوچنا چاہئے کہ لوگ کیا کہیں گے اسے اتنی بنیادی بات بھی معلوم نہیں۔ اس لئے کہ پوچھ پوچھ کر بہت سے لوگ بڑے بڑے مقام و مرتبے پر فائز ہو گئے جیساکہ ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما سے پوچھا گیا : آپ نے اتنا علم کیسے حاصل کیا ؟ تو آپ نے فرمایا : بِلِسَانٍ سَؤُولٍ وَقَلْبٍ عَقُولٍ یعنی : بہت زیادہ سوال کرنے والی زبان اور بیدار دل کے ذریعے۔[2]

لسانُ العرب ، حجۃُ الادب حضرت امام اصمعی رحمۃُ اللہ علیہ  ( وفات : 216ھ )  سے کسی نے عرض کی : آپ نے اتنا بڑا مقام و مرتبہ کس طرح حاصل کیا ؟ فرمایا : بِكَثْرَةِ سُؤَالِي وَتَلَقُّفِي الْحِكْمَةَ الشَّرُودَ یعنی سوالات کی کثرت اور مشکل و اہم باتوں کو سُن کر اچھی طرح یاد رکھنے کی وجہ سے۔[3]

صحابۂ کرام ا ور صحابیات کا انداز علمِ دین حاصل کرنے کے لئے سوالات کرنا صحابۂ کرام علیہمُ الرّضوان اور صحابیات کا قابلِ تقلید طریقہ رہا ہے ، یہ مُقَدَّس افراد سوالات کرنے کے لئے مختلف انداز اختیار کیا کرتے تھے ، کبھی خود بارگاہِ رِسَالَت میں حاضِرہو کر ، کبھی کسی کے ذریعے اپنا سوال پہنچا کر عِلْمی پیاس بجھانے کا سامان فرمایا کرتے۔ اِنہوں نے دِینی مَسَائِل سیکھنے میں کبھی جھجک کو رکاوٹ نہ بننے دیا ، جیساکہ اُمُّ الْمُؤمِنِین حضرت عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا نے انصاری صحابیات کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا : نِعْمَ النِّسَاءُ نِسَاءُ الاَنْصَارِ لَمْ یَکُنْ يَمْنَعُهُنَّ الحَيَاءُ اَنْ يَتَفَقَّهْنَ فِي الدِّينِ یعنی اَنصاری عورتیں کتنی اچھّی ہیں کہ دینی مسائل سیکھنے میں حَیا نہیں کرتیں۔[4]انصار کی انہی خواتین کے سوالات کی بدولت کتنے ہی شرعی احکام امت تک پہنچے ہیں۔

سوال کرنے میں جھجک کیسی ؟ حضرت امام بخاری رحمۃُ اللہ علیہ نے عِلم میں حیااور جھجک کے مُتَعلِّق ایک باب باندھا اور اس کا آغاز اس قول سے کیا : لَا يَتَـعَلَّمُ الْعِـلْمَ مُسْتَحْیٍ وَلَا مُسْتَكْبِـرٌ یعنی  ( حُصُولِ علم میں )  شرمانے والا اور تکبر کرنے والا علم حاصل نہیں کرسکتا۔[5]

جو آدمی اس خیا ل سے سوال کرنے سے شرماتا ہے کہ لوگ میرے بارے میں کیا سوچیں گے کہ اسے اتنی سی بات بھی نہیں معلوم ، بعض اوقات یہ ہمیشہ ان باتوں کو سیکھنے سے محروم رہ جاتا ہے۔

 حضرت سَیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز رحمۃُ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے : میں بہت کچھ جانتا ہوں ، لیکن جن باتوں کے بارے میں سوال کرنے سے شرمایا تھا ان سے اس بڑھاپے میں بھی بے خَبَر ہوں۔  [6]

اسی طرح جو اپنے آپ کو بہت بڑا عالم تصور کرتے ہوئے سوال کرنے کو اپنی شان کے خلاف سمجھے وہ علمِ نافع اور اس کی بَرَکتیں ہرگز ہرگز حاصل نہیں کرسکتا اور اس کے بر عکس جو آدمی علمِ دین سیکھنے سکھانے میں نہ شرمائے وہ اللہ کریم کے فضل و کرم سے علم و عمل کے میدان میں اتنا آگے نکل جاتا ہے کہ لوگ اس کی خاکِ پا کو بھی نہیں پہنچ پاتے۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : زِيَادَةُ الْعِلْمِ الابْتِغَاءُ وَدَرْكُ الْعِلْمِ السُّؤَالُ فَتَعَلَّمْ مَا جَهِلْتَ وَاعْمَلْ بِمَا عَلِمْتَ یعنی تلاش سے علم میں اضافہ ہوتا ہے اور علم میں مہارت سوال سے ہوتی ہے ، توجس کا تمہیں علم نہیں اس کے بارے میں سیکھو اور جو کچھ جانتے ہو ا س پر عمل کرو۔[7]

حضرت ابنِ شہاب رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : الْعِلْمُ خَزَانَةٌ مِفْتَاحُهَا الْمَسْئَلَةُ یعنی علم ایک خزانہ ہے سوال کرنا اس کی چابی ہے۔[8]

ایک کا سوال چار کو ثواب مسلمانوں کے چوتھے خلیفہ ، امیرُ المؤمنین حضرت علیُّ المرتضیٰ شیرِ خدا کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم سے روایت ہے : اَلْعِلْمُ خَزَائِنُ ومِفْتَاحُهُ السُّؤَالُ فَسَلُوا يَرْحَمكُمُ الله عزوَجلَّ فَاِنَّهُ یُوْجَدُ اَرْبَعٌ السَّائِلُ وَالْمُعَلِّمُ وَالْمُسْتَمِعُ وَالْمُحِبُّ یعنی علم خزانہ ہے اور سوال کرنا اس کی چابی ہے ، اللہ پاک تم پر رحم فرمائے سوال کیا کرو کیونکہ اس  ( یعنی سوال کرنے کی صورت )  میں چار افراد کو ثواب دیا جاتاہے  ( 1 ) سوال کرنے والے کو  ( 2 ) جواب دینے والے کو  ( 3 ) سننے والے کو اور  ( 4 ) ان سے محبت کرنے والے کو۔[9]

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* ذمہ دار شعبہ فیضان حدیث المدینۃ العلمیہ ، کراچی



[1] ابو داؤد ، 1 / 154 ، حدیث : 336

[2] فضائل الصحابہ ، 2 / 970 ، حدیث : 1903

[3] جامع بیان العلم وفضلہ ، ص126 ، رقم : 412

[4] مسلم ، ص147 ، حديث : 750

[5] بخاری ، 1 / 68

[6] جامع بیان العلم وفضلہ ، ص 126 ، رقم 413

[7] جامع بیان العلم وفضلہ ، ص122 ، رقم : 402

[8] جامع بیان العلم وفضلہ ، ص122 ، رقم : 403

[9] فردوس الاخبار ، 2 / 80 ، حدیث : 4011


Share