بہترین مرد کون ؟

حدیث شریف اور اس کی شرح

بہترین مرد کون ؟

*مولانا محمد ناصر جمال عطاری مدنی

ماہنامہ فیضان مدینہ جولائی 2023

رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : اَكْمَلُ الْمُؤْمِنِينَ اِيمَانًا اَحْسَنُهُمْ خُلُقًا وَخِيَارُكُمْ خِيَارُكُمْ لِنِسَائِھِم یعنی مسلمانوں میں بڑے کامل ایمان والا وہ ہے جو سب سے اچھے اخلاق والا ہواورتم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنی عورتوں کیلئے بہتر ہے۔[1]

اِس حدیثِ پاک کے پہلے حصّے میں اچھے اخلاق کو کامل ایمان کی نشانی قراردیا گیا ہے جبکہ دوسرے حصّے میں رشتہ دار خواتین کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کو بہترین ہونے کا معیار فرمایا گیا ہے۔ آئیے ! حدیث ِ پاک کے دونوں حصّوں کو تفصیلاً سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں :

اَكْمَلُ الْمُؤْمِنِينَ اِيمَانًا اَحْسَنُهُمْ خُلُقًا

حسن ِ اخلاق ہونا ایمان کی مضبوطی اور حسنِ اخلاق نہ ہونا ایمان میں کمزوری کی دلیل ہے۔[2]  مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہ علیہ لکھتے ہیں : مؤمن کا تعلق خالق  ( یعنی اللہ )  سے بھی ہے مخلوق  ( بندوں )  سے بھی ، خالق سے عبادات کا تعلق ہے؛ مخلوق سے معاملات کا ، عبادات دُرُست کرنا آسان ہے مگر معاملات کا سنبھالنا بہت مشکل ہے اسی لئے یہاں خلیق شخص کو کامل ایمان والا قرار دیا ، پھر اجنبی لوگوں سے کبھی کبھی واسطہ پڑتا ہے مگر گھر والوں سے ہر وقت تعلق رہتا ہے ، ان سے اچھا برتاؤکرنا بڑاکمال ہے ، اسلام مکمل انسانیت سکھاتا ہے۔  [3]  ایک اور مقام پر مفتی صاحب لکھتے ہیں : اچھی عادت سے عبادات اور معاملات دونوں درست ہوتے ہیں ، اگر کسی کے معاملات تو ٹھیک مگر عبادات درست نہ ہوں یا اس کے اُلٹ ہو تو وہ اچھے اخلاق والا نہیں۔ خوش خلقی بہت جامع صفت ہے کہ جس سے خالق اور مخلوق سب راضی رہیں وہ خوش خلقی ہے۔[4]

حسن ِ اخلاق کی تعریف : حسنِ اخلاق وہ مَلَکہ ( Ability )  ہے جس کی وجہ سے بندہ اچھے کام آسانی سے کرپاتا ہے۔[5]

اچھے اخلاق قُربِ مصطفیٰ پانےکاذریعہ : فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے : بیشک تم میں سے مجھے سَب سے زیادہ پسند اور آخرت میں میرے سب سے زیادہ قریب وہ شَخْص ہوگا جو تم میں بہترین اخلاق والاہوگااور تم میں سے مجھےسب سے زیادہ ناپسند اور آخرت میں مجھ سے زِیادَہ دُوروہ شَخْص ہوگاجوتم میں بَدترین اَخلاق والا ہوگا۔[6]

وَخِيَارُكُمْ خِيَارُكُمْ لِنِسَائِھِم

حدیث ِ پاک کے اِس حصّے کاایک معنی یہ ہے کہ اللہ کے نزدیک تم میں سےزیادہ بہتر وہ ہے جو ظاہر میں اپنی عورتوں کے لئے بہتر ہے۔“ظاہر میں بہترین ہونے کا مطلب یہ ہے کہ بندہ اپنی عورتوں کے ساتھ اچھے موڈ کےساتھ پیش آئے ، اِنہیں تکلیف دینےسے بچے ، خیرو بھلائی پہنچائے ، اِن کی طرف سے پہنچنے والی تکلیف پر صبر کرے۔[7]عورتوں کےساتھ بہترین سلوک کرنے کی تاکید اِس لئے فرمائی گئی ہے کیوں کہ خواتین کمزور ہوتی ہیں اور یہ کمزوری اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ اِن پرہرصورت میں رحم کیا جائے۔[8]

حدیثِ پاک میں عورتوں سےمراد : حدیثِ پاک میں جن عورتوں کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے کا فرمایا گیا ہے ، اُن میں اُصول  ( یعنی ماں ، دادی ، نانی ) فروع  ( یعنی بیٹی ، پوتی ، نواسی )  رشتہ دار  ( حقیقی و رضاعی بہن ، پھوپھی ، خالہ ) اوربیوی داخل ہیں۔[9]

رشتہ دار خواتین سےمتعلق فرامینِ مصطفےٰ : رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےرشتہ دار خواتین کے ساتھ اچھے اخلاق و کردار کی تعلیم دی ہے چنانچہ

 ( 1 )  رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے دیگر خواتین رشتہ دار سے متعلق فرمایا : جس نے دو بیٹیوں یا دو بہنوں یا دو خالاؤں یا دو پھوپھیوں یا نانی اور دادی کی کفالت کی تو وہ اور میں جنت میں یوں ہوں گے ، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنی شہادت اور اس کے ساتھ والی انگلی کو ملایا۔[10]

 ( 2 ) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بیوی کےساتھ حسنِ سلوک کے بارے میں فرمایا : مسلمانوں میں بڑے کامل ایمان والا وہ ہے جو سب سے اچھےاخلاق والا اور اپنے گھر والوں پر مہربان ہو۔[11]  ایک روایت میں فرمایا : جب  ( مرد )  کھائے تو اُسے کھلائے ، جب لباس پہنے تو اسے بھی پہنائے اور چہرے پرہرگز نہ مارے ، اسے برا نہ کہے اور اس سے جدائی اختیار کرنی ہی پڑے تو گھر میں ہی  ( علیحدگی اختیار )  کرے۔[12]

 ( 3 ) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے شوہر کوبیوی کی خامیوں سےنظر ہٹاکرخوبیوں پر نظررکھنے کے بارے میں فرمایا : کوئی مؤمن مرد مؤمن عورت سے نفرت نہ کرے۔ اگراسے اس کی کوئی عادت ناپسند ہے تو کوئی دوسری عادت پسند ہوگی۔[13]

رشتہ دارخواتین کے ساتھ پیارے آقا کا حسن ِسلوک : اللہ پاک کےآخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ایمان سب سے زیادہ کامل و اکمل ہے اس لئے آپ کا حسنِ اخلاق بھی سب سے زیادہ اعلیٰ و اکمل ہے۔[14]

حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنی رشتہ دارخواتین کے ساتھ حسن ِ اخلاق کا جو اِظہار فرمایا اس کی مثال کہیں نہیں ملتی۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اپنی دودھ شریک بہن حضرت شیماء سے کافی عرصے بعد ملاقات ہوئی تو آپ اُن کےلئے کھڑے ہوگئے ، اپنی چادر مبارک بچھاکر اُس پر بٹھایااور واپسی پرتحفے میں اُونٹ اور غلام عطافرمائے۔مقامِ جعرانہ پر دوبارہ ملاقات ہوئی تو بھیڑبکریاں بھی عطا فرمائیں۔[15]

 جب آپ کی شہزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا ملنے آتیں تو آپ اپنی بیٹی کے لئے کھڑے ہوجاتے ، ہاتھ چومتے اور اپنے ساتھ بٹھاتے۔[16]

رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنی ازواجِ مطہرات سے اُن کی دل چسپی کے موضوع پر گفتگو فرماتے۔  [17] ان کا چھوٹے سے چھوٹا شکوہ دور کرنے پر بھی بھرپور توجہ دیتے چنانچہ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : میں ایک سفر میں رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ تھی اور یہ میری باری کا دن تھا ، مجھے سواری کی وجہ سےدیر ہوگئی ، اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میرے پاس آئے میں رورہی تھی ، میں نے کہا : آپ نے مجھے سست اونٹ پر سوار کردیا۔ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنے ہاتھ سے میرے آنسوصاف کرنے لگے اور مجھےچپ کرانے لگے۔[18]

رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ازواجِ مطہرات کو سہولت فراہم کرنے میں بھی پیش پیش رہتے ، چنانچہ ایک موقع پر جب حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کو اونٹ پر سوار ہونے کی ضرورت پیش آئی تو اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اونٹ کے پاس بیٹھ گئے اور آپ کی سہولت کے لئے اپنا گھٹنا کھڑا کیا ، حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا آپ کے گھٹنے پراپنا پاؤں رکھ کر اونٹ پر سوار ہوئیں۔[19]

ذرا سوچئے ! اللہ کےآخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کےحسنِ اخلاق ، رشتہ دار خواتین کے بارے میں ارشادات اور طرزِ عمل دل وجان سے ہم اپنالیں تو مرد عورت کی جان ، مال ، عزت کا محافظ بن جائے گا ، لاتعداد برائیاں اپنی موت آپ مَر جائیں ، سوسائٹی کو امن و سکون نصیب ہو۔اللہ کریم ہمیں عمل کی توفیق عطافرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* ذمہ دار شعبہ فیضانِ حدیث ، المدینۃ العلمیہ   Islamic Research Center



[1] ترمذی ، 2 / 386 ، حدیث : 1165

[2] فیض القدیر ، 2 / 124 ، تحت الحدیث : 1441

[3] مراٰۃ المناجیح ، 5 / 101

[4] مراٰۃ المناجیح ، 6 / 652

[5] دلیل الفالحین ، جز 5 ، 3 / 76

[6] مسنداحمد ، 6 / 220 ، حدیث : 17747

[7] دلیل الفالحین ، جز5 ، 3 / 76 ، حدیث : 627

[8] مرقاۃ المفاتیح ، 6 / 406 ، حدیث : 3263

[9] فیض القدیر ، 2 / 124

[10] معجم کبیر ، 22 / 385 ، حدیث : 959

[11] ترمذی ، 4 / 278 ، حدیث : 2621

[12] ابن ماجہ ، 2 / 409 ، حدیث : 1850

[13] مسلم ، ص595 ، حدیث : 3648

[14] فیض القدیر ، 2 / 124ماخوذاً

[15] سبل الہدی والرشاد ، 5 / 333 ماخوذاً

[16] ابوداؤد ، 4 / 454 ، حدیث : 5217

[17] ابوداؤد ، 4 / 369 ، حدیث : 4932

[18] سنن کبریٰ للنسائی ، 5 / 369 ، حدیث : 9162

[19] بخاری ، 2 / 279 ، حدیث : 2893


Share