Book Name:Jhoot ki Tabah kariyan
بَھلا کہہ رہا تھا،تو میں نے تمہارا دِفاع(یعنی بچاؤ) کِیا تھا۔ حَجَّاج بولا :اِس کا گواہ کون ہے؟اُس شَخْص نے کہا:میں اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا واسِطہ دےکرکہتا ہوں کہ جس نے وہ گُفْتُگو سُنی تھی وہ گَواہی دے۔ایک دوسرے قَیدی نے اُٹھ کر کہا:ہاں!یہ واقِعہ میر ے سامنے پیش آیا تھا۔ حَجَّاج نے کہا: پہلے قَیدی کو رِہا کردو،پھر گواہی دینے والے سے پوچھا:تجھے کیا رُکاوٹ تھی کہ تُونے اُس قَیدی کی طرح میرا دِفاع(یعنی بچاؤ)نہ کِیا؟ اُس نے سچّائی سے کام لیتے ہوئے کہا : ’’رُکاوٹ یہ تھی کہ میرے دل میں تمہاری پُرانی دُشمنی تھی۔‘‘ حَجَّاج نے کہا:اسے بھی رِہا کردو، کیونکہ اس نے بڑی ہِمّت کے ساتھ سچ بولا ہے۔(وَفیات الاَعْیان لابن خلکان:۲/۲۸،ازجھوٹا چور،ص:۱۹)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! معلوم ہوا سچ بولنے والا ہمیشہ کامیاب ہوتا ہے، کیوں کہ”سانچ کو آنچ نہیں‘‘یعنی سچ بولنے والے کو کوئی خطرہ نہیں، وہ سَراسَر فائدے میں ہی ہے۔ مگر افسوس !صَد افسوس! آج ہمارے مُعاشَرے میں جُھوٹ ایک وَبائی مَرَض کی صُورت اِخْتِیار کر گیا ہے۔ مرد ہو یا عورت،چھوٹا ہو یا بڑا، اَمِیر ہو یاغَرِیب، وَزِیر ہو یا اُس کا مشیر،افسر ہو یاکوئی چَوکیدار، اَلْغَرَض! مُعاشَرے کا تَقْرِیباً ہر فرد اِس مَرَض کا مریض نَظَر آتا ہے۔ بدقسمتی سے آج کل ایسے مَواقِع پر بھی جھوٹ کا سَہارا لےلِیاجاتا ہے، جہاں سچ بولنے کی صُورت میں بھی کوئی دُنیوی نُقصان نہیں ہوتا۔
اِنہی صُورتوں میں سےا یک،والِدَین کا اپنے کَم
عُمربچوں سے جُھوٹ بولنابھی ہے۔عُمُوماً دیکھا جاتا ہے کہ والِدَین چھوٹےبچّوں سے
اپنی بات مَنْوانے کیلئے طرح طرح کے جُھوٹ بولتےہیں۔ جیسے اِدھرآؤ بیٹا! چیز لے
لو، پھر چلے جانا،(حالانکہ کچھ دینا نہیں ہوتا)یا چھوٹے بچّے کو بہلانے کیلئےیہ کہنا ،کہ بیٹا
چُپ ہوجاؤ ،ہم تمہیں کِھلونے لاکر دیں گے۔(جبکہ ایسااِرادہ نہیں ہوتا) اسی طرح بات نہ ماننے پر انہیں