Imam e Azam ka Taqwa

Book Name:Imam e Azam ka Taqwa

عَلَیْہ  نے فرمایا:جہاں بھر میں کسی کی عقل (امام اعظم  رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ )کے مثل نہیں۔حضرت بَکْربن حُبَیْشرَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے کہا:اگر (امام)ابُو حنیفہ کی عقل او ران کے زمانے والوں کی عقل جمع کی جائے تو ان سب کی عقلوں کے مجموعہ پر ان کی عقل غالب آجائے۔ (الخیرات الحسان، الفصل العشرون ، ص۶۲،از فتاویٰ رضویہ۱/۱۴۸)جس طرح ذہانت وفطانت میں آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کا کوئی ثانی نہ تھا اسی طرح آپرَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہتقویٰ وطہارت ،عِبادت  و رِیاضت اورخوف وخشیت  میں بھی بے مثال تھے،آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کے زُہد و تَقویٰ، عِبادت و رِیاضت کی گواہی کئی جَلِیْلُ الْـقدر بُزرگانِ دین نے دی ہے، آئیے! اس بارے میں چند  عُلمائے کرام کے اَقوال سُنتے ہیں:

1.  حضرتِ عبدُاللہ بن مُبارَک رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں:ایک بارمیں کُوفہ گیااوروہاں کے لوگوں سے پُوچھا :یہاں سب سے بڑا زاہدو عابد کون ہے؟ لوگوں نے کہا: امامِ اعظم ابُوحنیفہ (رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ)حضرت ابنِ مُبارَکرَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ مزیدفرماتے ہیں:مىں نے امام اعظم رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  سے زیادہ مُتَّـقی کسى کو نہ دىکھا، تم ایسے شَخْص  کی تعریف کرنے کی کیا قدرت رکھتے ہو، جن کے سامنے کثىر مال پىش کىا گىا مگر اُنہوں نے اس مال کی کچھ پروا نہ کی، اس پر انہیں  کوڑوں سے مارا گىا،آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نےآسائش و تکلیف دونوں حالتیں  اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  کی عِبادت  میں گُزاریں اور اس چیز کوکبھی  قبول نہ فرمایا جس کے لیے لوگ سوسو جَتَن اور حىلے بہانے  کرتے ہىں۔(الخیرات الحسان، ص۵۸،ملتقطاً)  

2.  امام بخاری رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کے اُستادِ محترم ،حضرتِ سَیِّدُنا مکی بن ابراہیم رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ   فرماتے ہیں: میں نے اہلِ کُوفہ میں سے کئی عُلَماء کی صحبت اختیار کی مگر ان میں سے کسی کو امام اعظم ابُوحنیفہ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ سے زیادہ مُتَّـقی وپرہیزگارنہیں پایا۔(الخیرات الحسان، ص۵۸)

3.  حضرتِ یزید بن ہارون رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں: میں نے ایک  ہزار اُستادوں سے علم حاصل کیا مگر امام صاحب کو  تقویٰ اور زبان کی حفاظت میں سب سے بڑھ کر پایا۔(الخیرات الحسان، ص۵۸)