Book Name:Imam e Azam ka Taqwa
1. حضرت وکیع رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں: امامِ اعظمرَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے اپنے آپ پر لازم کر لیا تھا کہ اگر سچی بات پر بھی قسم کھائیں گے تو ایک دِرہم صدقہ کریں گے، ایک مرتبہ قسم کھائی تو ایک دِرہم صدقہ کیا، اس کے بعد یہ لازم کر لیا کہ اب کی بار قسم کھائی تو ایک دینار صدقہ کریں گے تو جب بھی قسم کھاتے ایک دِینار صدقہ فرماتے۔ (الخیرات الحسان، ص۵۸)
فُضُول گوئی کی نکلے عادت، ہو دُور بے جا ہنسی کی خَصلت
دُرُود پڑھتا رہوں میں ہر دَم، امامِ اعظم ابُوحنیفہ!
(وسائلِ بخشش مُرمّم، ص۵۷۴)
صَلُّو ْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے؟ حضرتِ سَیِّدُنا امامِ اعظم رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کس قدر کمال تقویٰ کے مالک تھے کہ اپنی زبان کی حد درجہ حِفَاظَت فرماتےاور سچی قسم کھانے پر بھی دِرہم و دینار صدقہ کِیا کرتے۔ایک طرف توان کا روشن اور نورانی کردار تھا جبکہ دوسری طرف ہمارے گُناہوں سے بھر ے گندے دامن ، اُنہوں نے اپنی زبان کی ایسی حِفَاظَت فرمائی کہ لوگوں میں ”کم بولنے والے اور زیادہ خاموش رہنے والے“مشہور ہو گئے ، جبکہ ہماری فُضول بک بک اور زبان درازیوں سے کئی لوگ پریشان ہوتے ہوں گے، ان کےتقویٰ اور خوفِ خدا کا زمانہ گواہ تھا جبکہ ہماری حالت کیا ہے یہ ہم بہتر جانتے ہیں، غور کیجئےآخرایسا کیوں ہے؟کیا اس کی وجہ یہ تو نہیں کہ مَعَاذَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہمارے دل سے خوفِ خدانکلتا جارہا ہے؟کہیں کثرت سے گُناہ کرنے کے سبب ہمارے دل سیاہ تو نہیں پڑگئے؟اگر واقعی ایسا ہے تو تشویش کا مقام ہے کہ کہیں ہمارے دل کی سختی اور اس کی وجہ سے پیدا ہونے والی غفلت اور گُناہوں میں مدہوشی ہمیں جہنَّم کی گہرائیوں میں نہ گِرا دے۔لہٰذا اس سے پہلے کہ ہماری سانسوں کی مالا ٹُو ٹ کر بکھر