Book Name:Imam e Azam ka Taqwa
جائےاورحسرت وندامت کے سِوا ہمارے پاس کچھ باقی نہ رہے ہم اپنی آخرت کی بہتری کیلئے اپنے دل میں اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا خوف اور تقویٰ پیدا کرنے کی کوشش کریں۔
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!یاد رکھئے!تقویٰ وپرہیز گاری سَفرِآخرت کی کامیابی کیلئے بہت اَہَمیّت کی حامل ہے،اُخْروی نجات کا حُصُول اس نعمتِ عُظمٰی کے بغیر بہت مشکل ہے، کیونکہ عِبادات کوبجا لانے اور گُناہوں سے بازرہنے کا عظیم ذریعہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا خوف اور تقویٰ اِخْتیار کرناہے ۔
تفسیرِ کبیرمیں تقوی کی تعریف یہ منقول ہے کہ تم اپنے باطن کو اللہعَزَّ وَجَلَّکیلئے ویسے ہی سنوارو جیسے تم اپنے ظاہرکو مَخْلُوقکیلئے سنوارتے ہو۔یہ بھی کہا گیا ہے کہ مُتَّـقیوہ ہے جومُصطَفٰے کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے راستے پرچلے، دُنیا کو پیٹھ پیچھےرکھے ، اپنے نَفْس کواِخلاص اوروفا کاعادی بنائےاور حرام اورنافرمانی والے کاموں سے اِجتناب کرے۔(تفسیرِ کبیر،تحت الآیۃ : ذلک الکتاب لاریب فیہ،ج۱، ص۲۶۸) حضرت سُفیان ثوری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں کہ پرہیز گاروں کو مُتَّـقی اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ ایسی چیزوں سے بھی بچتے ہیں جن سے بچنا عُموماً دُشوار ہوتا ہے ۔(تفسیر در منثور ،ج۱،ص۶۱)
قرآنِ پاک اور تقویٰ کی اَہَمیّت:
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!سُنا آپ نے کہ مُتَّـقیوہ شخص ہوتا ہے جو اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا حقیقی خوف رکھنے والا ہو ،اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے احکامات پر عمل کرنے والا ہو،اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی حرام کردہ چیزوں سے بچنے والا ہو، جس طرح اپنے بدن اور کپڑوں کو معمولی داغ دَھبّوں سے بچاتا ہے اسی طرح اپنے باطن کو بھی باطنی بیماریوں حتّٰی کہ شُبُہَات(شک) والی چیزوں سےبھی بچاتا ہو،ایسا شخص ہی حقیقی تقویٰ والا کہلائے