Book Name:Imam e Azam ka Taqwa
ہے یا ناجائز طریقے سے؟ اکثر یہ جُملہ سُننے کو ملتا ہے”پیسہ آناچاہیے چاہے جہاں سے بھی آئے“ سوچئے توصحیح آج حرام ذرائع سے آنے والا یہ مال بروزِ قِیامت باعثِ وبال بن گیا تو کیا کریں گے؟اس مالِ حرام کی وجہ سے ہمارا رَبّ عَزَّ وَجَلَّہم سے ناراض ہوگیا توہم کہاں جائیں گے؟اگراسی مال کے سبب جہنَّم میں جانا مُقدَّر ٹھہر ا تو یقیناً سخت آزمائش میں مبُتلا ہوسکتے ہیں، لہٰذاابھی وقت ہے حلال و حرام میں فرق کیجئے، اپنے کاروبارمیں شرعی رہنمائی کیلئے دارُالافتاء اہلسنت سے رُجوع کیجئے ،اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ اس کےلیے مدنی چینل کا سلسلہ "احکامِ تجارت"بھی بہت معاون ہے،اس سلسلے کو بھی پابندی کے ساتھ دیکھنے کی برکت سے ہم بالخصوص تجارت کے کئی شرعی احکام کی معلومات سے مالا مال ہوسکتے ہیں۔یہ سلسلہ دیکھنے سےکاروباری ترقی کے ساتھ ساتھ سفرِآخرت کی تیاری کی مدنی سوچ بھی نصیب ہوگی۔اِنْ شَآءَ اللہعَزَّ وَجَلَّ
اضافی قیمت واپس کرنے کیلئے سفر!
منقول ہے کہ ایک شخص قىمتى کپڑا لینے مدینہ سےکُوفہ آىا، وہ کپڑا صرف امامِ اعظم رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہکے پاس ہى تھا، لوگوں نے اسے بتاىا کہ جب تم ان کے گودام مىں جاؤ اور وہ تمہارى خواہش کے مُطابق تمہارے سامنے کپڑا رکھىں تو بِلاچُون و چرا کپڑا خرىد لىنااور بھاؤ طے کرتے وقت بحث مت کرنا کىونکہ ابُوحنىفہرَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ تو خُود ہى مُناسب قىمت بتاتے ہىں، وہ شخص آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کى دُکان پرپہنچا توان کے اىک شاگردسے مُلاقات ہوئى، خریدارسمجھا کہ یہی ابوحنىفہ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ ہىں، اس نے کپڑا مانگاتو شاگرد نے کپڑا دکھادیا، اس نے قىمت پوچھى تو دُکاندار نے اىک ہزار درہم بتائى، اس شخص نے بغیرسوچے سمجھے اىک ہزار درہم دىئے اور سامان لے کر مدىنہ واپس چلا گیا ،کچھ عرصہ بعدحضرت امام اعظم رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے وہى کپڑا طلب فرماىا ،توشاگرد نے بتاىاکہ مىں نے تو اىک ہزار دِرہم کے بدلے وہ کپڑا فروخت کردىا تھا، آپ نے شاگرد کو فرماىا تم لوگوں کو دھوکا دىتے ہو اور