Book Name:Tazkirah e Sayyidi Qutb e Madina Ma Zulhijjah Kay Fazail
مُستَقْبِل میں کوئی کام پڑنے کا اِمکان ہو،بالخصوص جن سے کوئی دُنیوی مقصد نکلتا ہوا نظر آتا ہو ،ایسے اَفْراد کی خاص طور پرمعمول سے ہٹ کر زیادہ تَواضُع اور عزّت افزائی کی جاتی ہے لیکن وہ لوگ کہ جن سے زیادہ تَعلُّق اور واسِطہ نہ ہویاجن کی طرف سے اِن سے بڑھ کرکوئی مہمان نوازی نہ کرنے والا ہو تو ایسے اَفْراد پر عُمُوماً زیادہ تَوَجُّہ نہیں دی جاتی اور نہ ہی اُن کی تَواضُع کو زیادہ اَہمِیَّت دی جاتی ہے، حالانکہ مہمان نوازی میں سب کے ساتھ اُن کے مقام و مرتبے کے مطابق معاملہ کرناچاہیےاور ہر مہمان کی عزّت کرنی چاہئے۔
یاد رکھئے! کہ مہمانوں کی مُختلِف اقسام ہیں، ان میں سےہر ایک کے اپنے حُقُوق و آداب ہیں، لہٰذا انہیں ملحوظ رکھا جائے، بعض مہمان وہ ہوتے ہیں جو گھنٹے دو گھنٹے کیلئے آتے ہیں اور چائے،پانی پینے کے بعد چلے جاتے ہیں ان کے کیلئے خاص اہتمام ضروری نہیں ہوتا ، جبکہ بعض وہ ہوتے ہیں جنہیں ہم شادی بیاہ ،عقیقے وغیرہ کسی تَقْریب میں دَعوَت دے کر خودبُلاتے ہیں،اِس میں امیرو غریب کا فرق کیے بغیر کھلانے پلانے اور بٹھانے میں سب کیلئے یکساں اہتمام کرنا چاہیے،ایسانہ ہوکہ امیروکبیر لوگ تو شاہانہ انداز میں بیٹھے خُوب اَنواع واَقسام کے عُمدہ کھانوں سے لُطْف اٹھائیں مگر مُفْلِس،مُتَوسِّط اور غریب لوگوں کو عام کھانے کھلائے جائیں، ایساہر گز نہیں کرنا چاہیے کہ اس سے مسلمانوں کی دل شکنی اور دل آزاری ہوتی ہے۔اسی طرح بعض مہمان جیسے بہن ،بھائی یا قریبی رشتہ دار ایسے بھی ہوتے ہیں جو کچھ دنوں کیلئے رہنے آتے ہیں ،ان کی مہمان نوازی بھی کرنی چاہیے۔
بہارِ شریعت جلد 3 صفحہ نمبر 391 پر فرمانِ مُصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمہے : جو شَخْص اللہ عَزَّوَجَلَّ اور قِیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، وہ مہمان کا اِکرام کرے، ایک دن رات اُس کا جائزہ ہے