Maut aur Qabr ki Tayyari

Book Name:Maut aur Qabr ki Tayyari

            میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!جس طرح ہم مساجد سے موت کے اعلانات سُنتے ہیں،اِسی طرح ملک الموت (علیہ السلا م)بھی اعلان فرماتے ہیں:چنانچہ

            حضرتِ سیِّدُنا عبدُ اللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ سرکارِ والا تَبار، ہم بے کسوں کے مددگارصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ عبرت نشان ہے: ”کوئی دن ایسانہیں کہ جس میں ملک الموت(علیہ السلام)قبرستان میں یہ اعلان نہ کرتے ہوں: ”اے قبر والو! آج تمہیں کن لوگوں پر رشک ہے؟“ تو وہ جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں: ”ہمیں مسجد والوں پر رشک ہے کہ وہ مسجدوں میں نماز پڑھتے ہیں اور ہم نما ز نہیں پڑھ سکتے۔ وہ روزے رکھتے ہیں اور ہم نہیں رکھ سکتے۔ وہ صدقہ کرتے ہیں اور ہم نہیں کر سکتے۔ وہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کا ذکر کرتے ہیں اورہم نہیں کر سکتے۔“ پھر اہلِ قبر اپنے گزشتہ زما نے پر نادِم (یعنی شرمسار)ہوتے ہیں۔“ (حکایتیں اور نصیحتیں ،ص 62)

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!ابھی ہمارا شُمارزِندوں میں ہوتا ہے،ہم ابھی بھی گناہوں سے پکی سچّی توبہ کرکے اللہ و رسول عَزَّ  وَجَلَّ و صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اِطاعت و فرمانبرداری میں زندگی گزارنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔

 اگر ہمارے  بُرے اعمال کی وجہ سے اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  ناراض ہوگیا اوراس کے پیارے محبوب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ رُوٹھ گئے اور گناہوں کے سبب مَعَاذَ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ ایمان برباد ہوگیا تو ہمارا کیا بنے گا؟مُنکرنکیر کے سوالات کے جوابات کیونکر دے پائیں گے؟

            یادرکھئے!تین (3)سوالات اُس بد نصیب شخص سے بھی کیے جائیں گے کہ جس نے اپنی زندگی اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  کی نافرمانی میں بسر کی ہوگی۔ فرشتے نہایت سخت لہجے میں اس سے سوال کریں گے، مَنْ رَّبُّکَتیرا ربّ کون ہے ؟ آہ! ساری زندگی تو  رَبّ عَزَّ  وَجَلَّ کو یا د کیانہ تھا ! جواب نہیں بن پڑ رہا ہوگا اور جوبد نصیب گناہوں کی وجہ سے ا یمان برباد کر بیٹھا، اُس کی زبان سے بے ساختہ نکل جائے گا۔ ھَیْھَاتَ ھَیْھَاتَ لَااَدْرِی افسوس ! افسوس! مجھے کچھ نہیں معلوم۔ پھر پوچھا جائیگا، مَادِیْنُک تیرا دین کیا ہے ؟  جس بد نصیب نے صرف اور صرف دنیا ہی بسائی تھی، دنیا ہی کے امتحان میں پاس ہونے کی فکر اپنائی تھی۔ قبر کے امتِحان کی تیّاری کی طرف کبھی ذِہن ہی نہ گیا تھا ، بس صرف دنیا کی رنگینیوں ہی میں کھویا ہوا تھا ،کچھ سمجھ نہیں آرہی اور زَبان سے نکل رہاہوگا ، ھَیْھَاتَ