Book Name:Maut aur Qabr ki Tayyari
تنہا کیسے تشریف فرما ہیں؟فرمایا:ابھی ابھی ایک قَبْر نے مجھے پُکار کربُلایا اوربولی ،اے عُمَر بن عبد العزیز! مجھ سے کیوں نہیں پوچھتے کہ میں اپنے اندر آنے والوں کے ساتھ کیا برتاؤکرتی ہوں ؟میں نے اُس قبر سے کہا ، مجھے ضَرور بتا۔ وہ کہنے لگی ، جب کوئی میرے اندر آتا ہے تَو میں اُس کا کفن پھاڑ کرجِسْم کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالتی اوراس کا گوشت کھاجاتی ہوں،کیا آپ مجھ سے یہ نہیں پوچھیں گے کہ میں اس کے جوڑوں کے ساتھ کیا کرتی ہوں؟ میں نے کہا،یہ بھی بتا۔ تو کہنے لگی،ہتھیلیوں کو کلائیوں سے، گُھٹنوں کوپِنڈلیوں سے اور پِنڈلیوں کو قدموں سے جُدا کردیتی ہوں۔اتنا کہنے کے بعد حضرتِ سَیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ہچکیاں لے کر رونے لگے ۔ جب کچھ اِفاقہ ہوا تو کچھ اس طرح عبرت کے مَدَ نی پھول لُٹانے لگے:اے اسلامی بھائیو!اِس دنیا میں ہمیں بَہُت تھوڑا عرصہ رہنا ہے ،جو اِس دنیا میں صاحِب اقتدارہے وہ( آخِرت میں) انتہائی ذلیل و خوا ر ہوگا۔ جو اس جہاں میں مالدار ہے وہ (آخرت میں) فقیر ہوگا۔ اِس کا جوان بوڑھا ہوجائے گا اور جو زندہ ہے وہ مرجائے گا۔دنیا کا تمہاری طرف آنا تمہیں دھوکے میں نہ ڈال دے،کیونکہ تم جانتے ہو کہ یہ بہت جلد رخصت ہوجاتی ہے ۔ کہاں گئے تلاوتِ قرآن کرنے والے؟ کہاں گئے بَیْتُ اللہکا حج کرنے والے؟ کہاں گئے ماہِ رَمَضان کے روزے رکھنے والے ؟ خاک نے ان کے جسموں کا کیا حال کردیا ؟قبر کے کیڑوں نے ان کے گوشت کا کیا انجام کردیا ؟ ان کی ہڈِّیوں اور جوڑوں کے ساتھ کیا برتاؤ ہوا ؟
اللہعَزَّ وَجَلَّ کی قسم! جو (بے عمل)دنیا میں آرام دِہ نرْم نرْم بستر پر ہوتے تھے لیکن اب اپنے گھر والوں اور وطن کو چھوڑ کر راحت کے بعد تنگی میں ہیں ، ان کی اولاد گلیوں میں در بدر ہے، کیونکہ ان کی بیواؤں نے دوسرے نکاح کرکے پھر سے گھر بسالئے،ان کے رشتہ داروں نے ان کے مکانا ت پر قبضہ کر لیا اورمِیراث آپس میں بانٹلی۔وَاللہ!ان میں بعض خوش نصیب بھی ہیں جو کہ قبروں میں مزے لُوٹ رہے ہیں جبکہ بعض ایسے ہیں جو عذابِ قبر میں گرفتار ہیں ۔