Book Name:Mola Ali Aur Fikr e Akhirat
ہے۔ وقت ہے جو رُک نہیں سکتا، سانس ہے جو لمحہ بہ لمحہ ہمیں مَوت کے قریب کر رہی ہے، آہ! عنقریب...!! جلد اور بہت جلد مَلکُ الْمَوت(موت کے فرشتے)حضرت عزرائیل عَلَیْہ ِالسَّلام تشریف لائیں گے، سانس اَٹکے گی، جان تَڑپے گی، آخری ہچکی آئے گی اور رُوح بدن سے جُدا ہو جائے گی، پِھر یہ دُنیا ایک اَدُھورے خواب کی طرح ہو کر رہ جائے گی، یہاں کا پیسا، یہاں کی دولت، یہاں کا آرام، یہاں کے میڈل، یہاں کے منصب، یہاں کی عزّت، نام، شہرت سب کچھ دَھرے کا دَھرا رہ جائے گا اور ہم خالی ہاتھ اندھیری قبر میں اُتر جائیں گے۔
حضرت عبدُ الرحمٰن مُرِّی رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں: مسلمانوں کے چوتھے خلیفہ حضرت علی المرتضیٰ رَضِیَ اللہُ عنہ نے ایک روز فرمایا: (اے لوگو!) کیا میں تمہیں سب سے بڑی حسرت کے بارے میں نہ بتاؤں...! یہ اس شخص کی حسرت ہے جو دِرْہم پر دِرْہَم، قِیْراط پر قِیْراط (یعنی مال ہی مال) جمع کرتا چلا گیا، کرتا چلا گیا، پِھر اسے موت آ گئی اور اس کا سارا مال دوسروں کو وراثت میں مِل گیا۔([1])
پیارے اسلامی بھائیو! واقعی یہ بڑی حسرت کی بات ہے، مال تو جمع کیا مگر اپنے مال سے فائدہ کچھ نہ لے سکے، سارا مال دوسروں کے قبضے میں چلا گیا، اب کیا ہوتا ہے؛ وارث زمین کے اُوپر اس مال سے عیش کر رہے ہوتے ہیں اور مال جمع کرنے والا زمین کے نیچے عَذاب میں گرفتار یا پچھتاوے کا شکار ہو تا ہے۔