ایک سینہ تک مشابہہ اک وہاں سے پاؤں تک/صاف شکلِ پاک  ہے دونوں  کے ملنے سے عیاں

10 محرم الحرام نواسۂ رسول حضرت سیّدنا امام حُسین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا یومِ شہادت ہے، اس مُناسبت سے قصیدۂ نور کے دو اشعار مع شرح ملاحظہ فرمائیے:

ایک سینہ تک مشابہ اک وہاں سے پاؤں تک

حُسنِ سِبطَین ان کے جاموں میں ہے نِیما  نور کا

صاف شکلِ پاک ہے دونوں کے ملنے سے عِیاں

خطِ تَو اَم میں لکھا ہے یہ دو ورقہ نور کا

                                                                             (حدائقِ بخشش،ص249)

الفاظ و معانی :مشابہ: ہم شکل۔ سِبْطَین: دو نواسے۔ جاموں: جامہ کی جمع، لباس۔ عیاں: ظاہر۔ خطِ تَو اَم: اس خط کو کہتے ہیں جس میں ایک کاغذ کےدو ٹکڑے کرکےخط کے مضمون کو ان دونوں ٹکڑوں میں اس طرح تقسیم کردیا جاتا ہے کہ دونوں کو ملائے بغیر مضمون کی سمجھ نہ آسکے۔(فنِ شاعری اور حسان الہند، ص178 مفہوماً)

شرح کلامِ رضا :حضرتِ سیّدنا امام حسن مجتبیٰ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  سَر سے لیکر سینے تک جبکہ شہیدِ کربلا حضرتِ سیّدنا امام حسین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سینے سے پاؤں تک اپنے نانا جان رحمتِ عالمیان صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ سے مُشابہ تھے۔ جس طرح خطِ تَو اَم کے دونوں ٹکڑوں کو ملانے سے خط کا مضمون سامنے آجاتا ہے اسی طرح حَسنَین کریمَین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُما کی ایک ساتھ زیارت کرنے سے سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ کا نورانی سراپا نظر آتاتھا۔ حضرتِ سیّدنا علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے روایت ہے کہ امام حسن رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سینے اور سَر کے درمیان جبکہ امام حسین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سینے سے نیچے کے حصّے میں رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ کےبہت مشابہ تھے۔(ترمذی،ج5،ص430، حدیث:3804)

حکیمُ الامّت مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن اس روایت کے تحت فرماتے ہیں:خیال رہے کہ حضرت فاطمہ زہرا (رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا) اَزسر تا قدم بالکل ہم شکلِ مصطفیٰ تھیںصلَّی اللّٰہ علیہ وسلَّم اور آپ کے صاحبزادگان میں یہ مشابہت تقسیم کردی گئی تھی۔ حضرت حسین کی پنڈلی، قدم شریف اور ایڑی بالکل حضور کے مشابہ تھی علٰی جَدِّہ وعلیہ الصَّلٰوۃ والسَّلام! حضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے قدرتی مشابہت بھی اللّٰہ کی نعمت ہے جو اپنے کسی عمل کو حضور (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ) کے مشابہ کردے تو اس کی بخشش ہوجاتی ہے تو جسے خدا تعالٰی اپنے محبوب(صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ)  کے مشابہ کرے اس کی محبوبیت کا کیا حال ہوگا۔(مراٰۃ المناجیح،ج 8،ص480ملخصاً) سرکارِ نامدار،مدینے کے تاجدار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ سے حسنینِ کریمینرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُما کی اس مشابہت کو امامِ اَہلِ سنّت امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن نے اپنے نعتیہ دیوان ”حدائقِ بخشش“ میں ایک اور مقام پر یوں بیان فرمایا ہے:

معدوم نہ تھا سایۂ شاہِ ثَقَلَین

اِس نُور کی جلوہ گَہ تھی ذاتِ حَسَنَین

تمثِیل نے اس سایہ کے دو حصّے کیے

آدھے سے حَسن بنے ہیں آدھے سے حُسَین

                                        (حدائقِ بخشش،ص444)

اللّٰہ رب العزّت عَزَّ  وَجَلَّ کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صَدْقے ہماری بے حساب مغفرت ہو۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ


Share

Articles

Comments


Security Code