رشتوں کی تلاش(قسط:1)

ہمارے معاشرے میں تلاشِ رشتہ کے وقت عموماً ظاہری اور مادِّی چیزوں کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے جبکہ دین داری، شرافت اور اچھے اَخلاق جیسی خوبیوں کو نظر انداز کردیا جاتا ہے جو اِزدِواجی زندگی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ غالباً اسی لئے معاشرے میں طلاق دینے کا رجحان دن بَدِن بڑھتا جارہا ہے۔

یاد رکھئے! جب تک انسان کا باطِن خوبصورت نہ ہو ظاہری خوبصورتی کسی کام کی نہیں۔فرمانِ مصطفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہے: عورت سے نکاح چار باتوں کی وجہ سے کیا جاتا ہے: مال، حَسَب نَسَب،حُسْن وجمال اور دِین  مگر تم دِین والی کو ترجیح دو ۔ (بخاری ،ج3،ص429، حدیث:5090)

کامیاب گھریلوزندگی کے لئے رشتوں کی تلاش میں کچھ احتیاطیں ضروری ہیں ورنہ زندگی بے سکونی اورالجھنوں کا شکار ہوکر  رَہ جائے گی ۔ فی زمانہ رشتہ تلاش کرنے میں کئی  غَلَط انداز اختیار کئے جاتے ہیں،عام طور پر لڑکے والوں کی تمنا یہ ہوتی ہے: (1)”آنے والی“امیرباپ کی بیٹی ہو (2)ماں باپ کی اِکلوتی ہو تو کیا ہی بات ہے (3)لڑکی کے بھائی اعلیٰ سرکاری عُہدوں پر فائز ہوں (4)اور اگر  کئی بھائیوں کی ایک ہی بہن ہو تو سونے پہ  سہاگا کیونکہ اس سے تحائف ملنے کے اِمکانات بڑھ جاتے ہیں (5) بہو خوب جہیز لے کر آئے (6)بیٹے کو سَلامی میں موٹر سائیکل یا گاڑی ملے (7)کوئی پلاٹ یا مکان بھی مل جائے (8)بہو کا والد اپنے داماد کو کوئی کاروبار ہی شروع کروا دے (9)لڑکی کسی اچھی جگہ نوکری(Job)کرتی ہووغیرہ ۔غور کیا جائے تو ان سب میں ایک چیز”دوسرے کے مال کو لَلچائی ہوئی نظروں سے دیکھنا“ مُشترَک ہے، شریعت میں جہاں اس کی مَذمّت  بیان کی گئی ہے وہیں لوگوں کے مال سے بے رغبتی کو ہر دل عزیز بننے کا نسخہ بتایا گیا ہے چنانچہ نبیِّ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: دُنیا سے بےرَغْبَت ہو جاؤ، اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کے محبوب بن جاؤ گے اورلوگوں کے پاس جو کچھ (مال واَسبابِِ دُنیا) ہے اُس سے بے نیاز ہو جاؤ تولوگ بھی تمہیں محبوب بنالیں گے۔(الترغیب و الترھیب،ج4،ص45، حدیث:4918)

اسی طرح لڑکی والوں کی عموماً یہ خواہش ہوتی ہے: (1)لڑکا اسمارٹ(Smart) اور فیشن ایبل(Fashionable) ہو(2)باپ کی جائیداد و کاروبار کا اِکلوتا وارث ہو (3)نندیں نہ ہوں(4) اگر ہوں تو ”اپنے  گھر کی ہو چکی ہوں“ تاکہ ہماری بیٹی سُسرال میں راج کرے۔ (5) لڑکا نوٹوں میں کھیلتا ہو (اگرچہ حرام سے کمائے گئے ہوں) (6)تنخواہ معقول بھی ہو تو نظر اس پر ہوتی ہے کہ ” اُوپر کی کمائی“کتنی بنا لیتا ہے۔(7)لڑکا بیرونِ ملک  ہو تو گھر بھر کی چاندی ہو جائے گی وغیرہ۔غالباً اسی لئے بارہا لوگوں کویہ کہتے سُنا جاتا ہے: اچھے رشتے نہیں ملتے۔ ایسے لوگوں سے ایک سوال ہے کہ اچھے رشتے کا معیار کیا ہے؟ وہ جو ہمارا خود ساخْتہ ہے یا وہ جسے شریعت نے اچھا رشتہ قرار دیا۔اس بات میں  کوئی دو رائے نہیں کہ ہر باپ اپنی بیٹی کے لئے اچھے لڑکے کا انتخاب کرنا چاہتا ہے اور لڑکے والے بھی اچھے رشتے کی تلاش میں ہوتے ہیں لیکن یہ بات ہر مسلمان کو پیشِ نظر رکھنی چاہئے  کہ اچھا  رشتہ وہی ہے جو اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے پیارے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے نزدیک اچھا ہے لہٰذادین دار اور ضروری تقاضوں کو پورا کرنے والا رشتہ ملتا ہو تو اسے ٹھکرانے کی بجائے اپنانے کا ذہن ہونا چاہئے۔رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم فرماتے ہیں :جب ایسا شخص نکاح کا پیغام بھیجے، جس کے خُلق و دین سے تم راضی ہو تو اُس سےنکاح کردو، اگر نہ کرو گے تو زمین میں فتنہ اور فسادِ عظیم ہوگا۔(ترمذی،ج2،ص344، حدیث:1086)

دین داری  میں سب سے پہلے عقیدے پھر فرائض وواجبات پر عمل کو مَدِّنظر رکھا جائے مثلاً نماز روزے کی پابندی ہے یا نہیں؟ نیز لڑکی شرعی پردے وغیرہ کا اہتمام کرتی ہے یا نہیں؟ حقوقُ اللہ اورحقوقُ العباد کی ادائیگی میں کیا کیفیت ہے؟ حضرتِ سیِّدُنا حسن بصری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے پاس ایک شخص آیا اور عرض کی : میری ایک بیٹی ہے جس سے میں بہت پیار کرتا ہوں، اس کے کئی رشتے آئے ہیں، آپ مجھے کس سے اُس کی شادی کرنے کا مشورہ دیتے ہیں؟ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ارشاد فرمایا : اس کی شادی ایسے شخص سے کرو جو اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرتاہو  کیونکہ اگر ایسا شخص تمہاری بیٹی سے محبت کرے گا تو اسے عزّت دے گا اور اگر نفرت بھی کرے گا تو ظلم نہیں کرے گا ۔ (شرح السنۃ للبغوی ،ج 5،ص9، تحت الحدیث: 2234)

دین داری اور خوش خُلقی پر ظاہری اور مادِّی چیزوں کو فَوقیَّت دینے والوں کو یاد  رکھنا چاہئے کہ نبیِّ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے فرمایا: جس نے کسی عورت سے اُس کی عزّت کی وجہ سے نکاح کيا تو اللہتعالٰی اس کی ذِلّت کو بڑھائے گا،جس نے عورت کے مال و دولت (کے لالچ)کی وجہ سے نکاح کيا، اللہتعالٰی اُس کی غربت میں اضافہ کرےگا،جس نے عورت کے حَسَب نَسَب(یعنی خاندانی بڑائی)کی بنا پر نکاح کيا، اللہتعالٰی اس کی کمينگی کو بڑھائے گااور جس نے صرف اور صرف اس لئے نکاح کيا کہ اپنی نظر کی حفاظت کرے،اپنی شرم گاہ کو محفوظ رکھے،يا صِلَۂ رحمی کرے تو اللہتعالٰی اس کے لئے عورت میں برکت دے گااور عورت کے لئے مرد میں برکت دے گا۔(معجم اوسط،ج2،ص18،حدیث:2342)                                                                               (بقیہ آئندہ شمارے میں)


Share

Articles

Comments


Security Code