اِسلام نے معاشرے کو بہترین بنانے کے کئی طریقے عطا فرمائے ہیں۔ ان میں سے ایک ”ایثار“ (Sacrifice) ہے۔ ایثار معاشرے کے افراد کو باہم مَربُوط کرتا اور ان کے تعلق میں مضبوطی لاتا ہے۔ ایثار کی فضیلت: نبیِّ پاک صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو شخص کسی چیز کی خواہش رکھتا ہو پھر اپنی خواہش ترک کر دے اور دوسرے کو اپنے اوپر تر جیح دے تو اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کو بخش دے گا۔(تاریخ دمشق، ج31،ص142) ایثار کی تعریف: ایثار کا معنیٰ ہے: دوسروں کی خواہش اور حاجت کو اپنی خواہش و حاجت پر ترجیح دینا۔(مدینے کی مچھلی، ص3) یعنی اپنے مَفاد کو دوسروں کے مَفاد پر قربان کر دینے کا نام ایثار ہے۔ نفس یہ چاہتا ہے کہ بندہ اپنی خواہشات اور ضروریات کو پیشِ نظر رکھے جبکہ جذبَۂ ایثار یہ تقاضا کرتا ہے کہ رضائے الٰہی کی خاطر دوسروں کو خود پر ترجیح (Priority) دی جائے اور قیمتی سے قیمتی چیز دینے سے بھی دریغ (بخل) نہ کیا جائے۔ ایثار کی اہمیت: ایثار ایک اعلیٰ صفت، بلند مرتبے کی پہچان اور مؤمن کا شعار ہے۔ اپنے لئے تو ہر کوئی کماتا ہے لیکن کمال یہ ہے کہ کمایا ہوا مال اپنے ساتھ ساتھ غریبوں اور مسکینوں پر بھی خرچ کرے۔ایثار اور ہمارا معاشرہ: جذبَۂ ایثار اپنے پرائے، جان پہچان اور امیر غریب کی خودغرضانہ قید سے آزاد ہوتا ہے۔ مگر افسوس! آج اولاً تو ہم اس جذبے سے واقف ہی نہیں یا اگر کبھی ایثار کرتے بھی ہیں تو وہاں جہاں اپنا مفاد ہوتا ہے۔ بغیر مطلب دوسروں کے کام آنے کا خیال ناپید(ختم) ہوتا جارہا ہے۔ خود غرضی اور مفاد پرستی نے معاشرے میں تباہی مچا رکھی ہے، نتیجۃً لوگ ایک دوسرے سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ صحابی کا ایثار:ایک دفعہ بارگاہِ رسالت میں بھوکا شخص آیا، نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ازواجِ مطہرات رضیَ اللہ تعالٰی عنہُنَّ سے کھانے کا معلوم کروایا مگر کسی کے ہاں کچھ نہ تھا۔ تب آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے صحابۂ کرام علیہِمُ الرِّضْوَان سے فرمایا: جو اِس شخص کو مہمان بنائے اللہ تعالٰی اس پر رحمت فرمائے گا۔ ایک انصاری صحابی رضیَ اللہ تعالٰی عنہ کھڑے ہوئے اور مہمان کو اپنے گھر لے گئے ، گھر جا کر بی بی سے کہا: جو کچھ ہے پیش کر دو! جواب ملا: صرف بچّوں کےلئے کھانا رکھا ہے، کہنے لگے: بچّوں کو سُلا دو اور چراغ بجھادو، ہم آج بھوکے رہیں گے، بیوی نے ایسے ہی کیا، صبح ہوئی تو نبیِّ پاک صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے تعریف کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: اللہ تعالٰی فلاں اور فلانی سے بہت خوش ہے اور یہ آیت نازل فرمائی ہے: (وَ یُؤْثِرُوْنَ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ وَ لَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ﳴ) (پ28،الحشر:9)ترجمۂ کنزالایمان: اور اپنی جانوں پر ان کوترجیح دیتے ہیں، اگرچہ انہیں شدیدمحتاجی ہو۔(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) (بخاری،ج3،ص348، حدیث:4889 ملخصاً) ایثار کی مختلف صورتیں: ایثار کا مطلب صرف یہ نہیں کہ دوسروں کو صرف کھانے پینے اور لباس پوشاک میں اپنے اوپر ترجیح (Priority) دی جائے بلکہ موقع محل اور مقام و مرتبہ کے لحاظ سے دوسروں کو خود پر ترجیح دینا بھی ایثار ہی کہلائے گا کیونکہ یہ ایسی صفت ہے کہ زندگی کے ہر شعبے میں اس کا تعلّق نظر آتا ہے، غور و فکر کرنے کی صورت میں اس کی کئی صورتیں سامنے آسکتی ہیں۔ مثلاً سڑک پار کرتے افراد کو دیکھ کر گاڑی روک لینا اور انہیں گزرنے دینا، ٹرین کے ٹکٹ خریدتے ہوئے قطار میں بوڑھوں/بیماروں کو خود پر ترجیح دینا، بھری بس/ٹرین میں کسی بوڑھے یا سامان سے لدے مسافر کو دیکھ کر اپنی سیٹ چھوڑ دینا، کسی کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھا رہے ہوں تو بوٹی یا کھانے کا اچّھا حصّہ دوسروں کو پیش کرنا وغیرہ یہ سب ایثار ہی کی صورتیں ہیں۔ الغرض! روز مَرَّہ کے کئی امور ایسے ہیں جو ایثار کے زُمرے میں آتے ہیں۔ اگر ہم ان معاملات میں تھوڑی سی توجّہ اور تحمل سے کام لیں گے تو ایثار کا اَجَر حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔اللہ عَزَّوَجَلَّ توجّہ نصیب فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
Share
Articles
حضور نبیِّ رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دریائے رحمت سے بڑوں کے ساتھ ساتھ بچوں نے بھی بہت فیض لیا۔
Comments