فرشتوں کے سردار کو اصل شکل میں دیکھا(قسط:01)

باتیں میرے حضور کی

فرشتوں کے سردار کو اصل شکل میں دیکھا  (قسط :1 0)

* مولانا کاشف شہزاد عطاری مدنی

ماہنامہ جنوری2022

اللہ پاک کی عطا سے سرکارِ مدینہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو ایسے کثیر اعزازات حاصل ہوئے جو مخلوق میں سے کسی اور کے حصے میں نہ آئے۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے فرشتوں کے سردار حضرت سیدنا جبریلِ امین  علیہ الصّلوٰۃ والسّلام  کو دو مرتبہ ان کی اصل شکل و صورت میں ملاحظہ فرمایا۔ [1]

اے عاشقانِ رسول! حضرت سیدنا جبریلِ امین  علیہ الصّلوٰۃ والسّلام  فرشتوں کے سردار جبکہ سرکارِ دوعالَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے خادم اور و زیر ہیں۔ خادم و وزیر کی عظمت و شان اور اپنے آقا سے محبت ظاہر ہونے سے آقا کی فضیلت و رُتبے کا اظہار ہوتا ہے۔ آئیے! جبریلِ امین  علیہ السّلام سے متعلق کچھ معلومات حاصل کرتے ہیں ، اِن شآءَ اللہ ان کی بدولت ہمارے دل میں آقائے دوعالَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی محبت میں مزید اضافہ ہوگا۔

5فرامینِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم :

(1)رَاَ يْتُ جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَام فَاِذَا اَقْرَبُ مَنْ رَاَيْتُ بِهِ شَبَهًا دَحْيَةُ بْنُ خَلِيفَةَ یعنی میں نے جبریل  علیہ السّلام  کو دیکھا تو دَحیہ بن خلیفہ ان سے بہت مُشابہ(ملتے جلتے) ہیں۔ [2]

 حضرت سیّدنا دحیہ ابنِ خلیفہ کَلبی رضی اللہ عنہ قدیمُ الاسلام اور جلیلُ الْقَدر صحابی ہیں۔ دحیہکےدال پر زیر یا زبر دونوں آسکتے ہیں۔ دحیہ کلبی  رضی اللہ عنہ  نہایت حسین و جمیل تھے اس لئے جبریلِ امین  علیہ الصّلوٰۃ والسّلام (عموماً)انہیں کی صورت اختیار کرکے بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوتے تھے۔ [3]

(2)رَاَيْتُ جِبْرِيْلَ عَلٰى سِدْرَةِ الْمُنْتَهٰى وَلَهٗ سِتُّمِائَةِ جَنَاحٍ یعنی میں نے جبریل کو سِدْرَۃُ الْمُنْتَھٰی کے پاس دیکھا کہ ان کے 600 پر ہیں۔ [4]

(3)اَلَا اُخْبِرُكُمْ باَفْضَلِ الْمَلَائِكَةِ جَبْرِيْلُ عليه السّلام یعنی کیا میں تمہیں نہ بتاؤں کہ سب فرشتوں سےافضل کون ہے ؟ (وہ) جبریل  علیہ السلام (ہیں)۔ [5]

فرشتوں میں افضل کیا یوں خدا نے

کہ کرتے تھے جبریل خدمت نبی کی[6]

(4)ہر نبی کے دو وزیر آسمان والوں میں سے اور دو زمین والوں میں سے ہوتے ہیں۔ آسمان والوں میں سے میرے وزیر جبرائیل و میکائیل جبکہ زمین والوں میں سے ابوبکر و عمر ہیں۔ [7]

امام ابنِ حجر مکی ہیتمی شافعی  رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جس طرح حضراتِ ابو بکر و عمر   رضی اللہ عنہما  انسانوں میں سے امتِ مصطفےٰ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے سردار ہیں یونہی حضراتِ جبریل و میکائیل  علیہما السّلام  حضور  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے امتی فرشتوں کے سردار ہیں۔ [8]

(5)مَا بَيْنَ مَنْكِبَيْ جِبْرِيْلَ مَسِيْرَةُ خَمْسِمِائَةِ عَامٍ لِلطَّائِرِ السَّرِيْعِ الطَّيْرَانِ یعنی حضرت جبریل کے دونوں کندھوں کے درمیان ایک  تیز رفتار پرندے کی 500 سال کی مَسافت جتنا فاصلہ ہے۔ [9]

القابات و اسمائے جبریل علیہ السّلام :

حضرت جبریل  علیہ السّلام اللہ پاک کے مشہور فرشتے ہیں جو مختلف انبيائے کرام  علیہم السّلام  کے پاس وحی لے کر آتے رہے جبکہ سب سے زیادہ رحمتِ عالَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ کے مبارک نام سے متعلق بعض علما نے 9 جبکہ بعض نے 14 لُغات بیان فرمائی ہیں ، مثلاً : (1)جِبْرِیْل (2)جَبْرِیْل (3)جَبْرَئِلّ (4)جِبْرَائِيْل (5)جِبْرَايِيْل (6)جِبْرَئِيْل (7)جَبْرَئِل (8)جِبْرِيْن (9)جَبْرِيْن۔ جبریل کا معنی عبدُاللہ (اللہ کا بندہ) ہے جبکہ فرشتوں کے درمیان آپ ’’خادِمُ رَبِّہٖ یعنی اپنے رب کا خادم ‘‘ کے لقب سے مشہور ہیں۔ آپ  علیہ السّلام  کے القابات اَمِيْنُ الْوَحْي ، خَازِنُ الْقُدْس ، اَلرُّوحُ الْاَمِیْن ، رُوْحُ الْقُدُس ، اَلنَّامُوْسُ الْاَكْبَر اور طَاؤُوْسُ الْمَلَائِكَة وغیرہ ہیں۔ [10]

پائے جبریل نے سرکار سے کیا کیا اَلقاب

خُسْرَوِ خَیلِ مَلَک ، خادمِ سلطانِ عرب[11]

فیضانِ صحبتِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم :

غوثِ زَماں حضرت سیدناشیخ عبدُالعزیز بن مسعود دَبّاغ  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں : جبریلِ امین  علیہ السلام  اور دیگر تمام فرشتے نورِ مصطفےٰ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے پیدا کئے گئے ہیں اور ان سمیت تمام مخلوق کو اللہ پاک کی مَعرِفت دربارِ مصطفےٰ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  سے ہی حاصل ہوتی ہے۔ اس بات کو انسان و جنات میں سے اولیائے کرام ، تمام فرشتے اور خود جبریلِ امین بھی جانتے ہیں کہ حضرت جبریل  علیہ السّلام  کو اللہ پاک کی جو معرفت اور قُرب حاصل ہے وہ صحبتِ مصطفےٰ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی بدولت ہے۔ اگر حضرت جبریل  علیہ السّلام کو یہ صحبت حاصل نہ ہوتی اور وہ اپنی ساری عمر مَعرِفتِ خداوندی کے حصول میں کوشش کرتے رہتے تو اپنے موجودہ مقامات میں سے ایک بھی مقام حاصل نہ کرپاتے۔ [12]

اَنبیا و اَولیا و اَوَّلین و آخرین

کون ہے جس کو نہیں حاجت رَسُوْلُ اللّٰہ کی[13]

تخلیقِجبريل علیہ السّلام کا مقصد :

شیخ عبدالعزیز دَبّاغ  رحمۃ اللہ علیہ مزید فرماتے ہیں : حضرت سیدنا  جبریلِ امین  علیہ الصّلوٰۃ والسّلام نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی خدمت کے لئے پیدا کئے گئے ہیں اور وہ حضور  علیہ السّلام کے مُحافِظِین و خادِمین میں سے ہیں۔ [14]

اَزَل میں نعمتیں تقسیم کیں جب حق تعالیٰ نے

لکھی جبریل کی تقدیر میں خدمت محمد کی[1]

صحبتِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کب ملی؟

زَیْنُ الدِّین امام محمد عبدالرّؤف مُناوی  رحمۃ اللہ علیہ  لکھتے ہیں : اللہ پاک نے حضرت اِسرافِیل  علیہ السّلام کو سیِّدِ عالَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے ساتھ رہنے کا حکم فرمایا چنانچہ وہ گیارہ سال کی عمر تک صحبتِ مصطفےٰ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی برکتیں پاتے رہے۔ اُس کے بعد یہ اعزاز حضرت جبریل  علیہ السّلام  کو حاصل ہوا لیکن (اس وقت) وہ نہ تو آپ کے سامنے ظاہر ہوتے اور نہ ہی کلام کرتے تھے۔ [2]

خادمِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم :

اے عاشقانِ رسول! اللہ پاک نے حضرت سیدنا جبریلِ امین  علیہ الصّلوٰۃ والسّلام  کو اپنے آخری نبی  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا خادم بناکر ان کی شان و عظمت کو مزید چار چاند لگائے۔ اعلیٰ حضرت ، امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان  رحمۃ اللہ علیہ  نے اس موضوع سے متعلق ایک لاجواب رسالہ تحریر فرمایاجس کانام ہے : اِجْلَالُ جِبْرِیْل بِجَعْلِہٖ خَادِماً لِلْمَحْبُوْبِ الْجَمِیْل۔

دیکھی نہیں کسی نے اگر شانِ مصطفےٰ

دیکھے کہ جبرئیل ہیں دربانِ مصطفےٰ

اللہ پاک حضرت سیّدنا جبریلِ امین  علیہ الصّلوٰۃ والتسلیم  کے طفیل ہمیں دونوں جہاں میں سرکارِ مدینہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سچی غلامی نصیب فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ ، ماہنامہ  فیضانِ مدینہ ، کراچی



[1] زرقانی علی المواہب ، 1 / 108 ، کشف الغمۃ ، 2 / 54

[2] مسلم ، ص91 ، حديث : 423

[3] نسیم الریاض ، 4 / 288 ، بشیر القاری ، ص203

[4] مسند احمد ، 2 / 73 ، حدیث : 3862

[5] معجم کبیر ، 11 / 129 ، حدیث : 11361

[6] قبالۂ بخشش ، ص315

[7] ترمذی ، 5 / 382 ، حدیث : 3700

[8] فتاویٰ حدیثیہ ، ص286

[9] الحبائک فی اخبار الملائک ، ص21

[10] نسیم الریاض ، 1 / 133 ، الحبائک فی اخبار الملائک ، ص19 ، شرح ابو داؤد للعینی ، 2 / 238 ، عمدۃ القاری ، 10 / 589

[11] حدائقِ بخشش ، ص59

[12] جواہر البحار ، 2 / 310

[13] قبالۂ بخشش ، ص304

[14] جواہر البحار ، 2 / 310

[15] قبالۂ بخشش ، ص258

[16] الکواکب الدریۃ ، جزء اول ، قسم اول ، ص22


Share