تفسیر ِقراٰنِ کریم

صدیقِ اکبر رضی اللہُ عنہ اور رضائے الہٰی

* مفتی محمد قاسم عطّاری

اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:(وَ سَیُجَنَّبُهَا الْاَتْقَىۙ(۱۷)الَّذِیْ یُؤْتِیْ مَالَهٗ یَتَزَكّٰىۚ(۱۸)وَ مَا لِاَحَدٍ عِنْدَهٗ مِنْ نِّعْمَةٍ تُجْزٰۤىۙ(۱۹)اِلَّا ابْتِغَآءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْاَعْلٰىۚ(۲۰)وَ لَسَوْفَ یَرْضٰى۠(۲۱) ) ترجمۂ کنزُالعرفان: اور عنقریب سب سے بڑے پرہیزگارکو اس آگ سے دور رکھا جائے گا، جو اپنا مال دیتا ہے تاکہ اسے پاکیزگی ملے اور کسی کا اس پر کچھ احسان نہیں جس کا بدلہ دیا جانا ہو، صرف اپنے سب سے بلند شان والے رب کی رضا تلاش کرنے کے لیے اور بیشک قریب ہے کہ وہ خوش ہوجائے گا۔   (پ30، اللیل:17تا21)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

شانِ نزول: جب حضرت صدیقِ اکبر  رضی اللہُ عنہ  نے حضرتِ بلال  رضی اللہُ عنہ  کو بہت مہنگی قیمت پر خرید کر آزاد کیا تو کفار کو حیرت ہوئی اور اُنہوں نے کہا کہ ابوبکر  رضی اللہُ عنہ  نے ایسا کیوں کیا؟ شاید بلال کا اُن پر کوئی اِحسان ہوگا، جو اُنہوں نے اتنی مہنگی قیمت دے کر انہیں خریدا اور آزادکردیا۔ اِس پر یہ آیات نازل ہوئیں اور اِن میں یہ ظاہر فرما دیا گیا کہ ابو بکر صدیق  رضی اللہُ عنہ  کا یہ فعل محض اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے ہے کسی کے اِحسان کا بدلہ نہیں اور نہ اُن پر حضرتِ بلال  رضی اللہُ عنہ  وغیرہ کا کوئی احسان ہے۔   (تفسیرِ خازن، 4/385)

حضرت صدیق اکبر  رضی اللہُ عنہ  نے حضرت بلال  رضی اللہُ عنہ  کے علاوہ بھی بہت سے لوگوں کو اُن کے اسلام کی وجہ سے خرید کر آزاد کیا، جیسے حضرت عامر بن فُہیرہ،حضرت اُمِّ عُمیس اور حضرت زَہرہ  رضی اللہُ عنہم ۔

مفسرین کا اِجماع:امام علی بن محمد خازِن  رحمۃُ اللہِ علیہ  فرماتےہیں: تما م مفسرین کے نزدیک اِس آیت میں سب سے بڑے پرہیزگار سے مراد ”حضرت ابوبکر صدیق  رضی اللہُ عنہ “ ہیں (اور یہ آیت آپ  رضی اللہُ عنہ  کی شان میں نازل ہوئی ہے۔)   (تفسیرِ خازن، 4/384)

اِن آیاتِ مبارکہ میں افضل الناس بعد الانبیاء، سیدنا صدیق اکبر  رضی اللہُ عنہ  کے فضائل کے انوارجگمگا رہے ہیں۔اُن میں سے کچھ لمعات و انوار یہ ہیں۔

پہلی فضیلت:دنیا میں سیدنا صدیقِ اکبر  رضی اللہُ عنہ  سے کوئی گناہ سَرْزَد نہ ہو گا، کیونکہ دنیا میں ایسے بہت سے متقی گزرے ہیں جنہوں نے کبھی کسی گناہ کا اِرتکاب نہیں کیا،یعنی متقین کی اعلیٰ قسم میں ایسے لوگ موجود رہے ہیں، تو جو سب سے بڑے متقی ہیں، اُن سے گناہ کا ارتکاب کیسے ہوسکتا ہے، پھر آپ  رضی اللہُ عنہ  کی سیرت کا مطالعہ کرنے والوں پر بھی یہ فضیلت واضح ہے کہ آپ  رضی اللہُ عنہ  کی مبارک زندگی میں کسی گناہ کا اِرتکاب نظر نہیں آتا، بلکہ نیکی کے کاموں پر دوسروں سے سبقت لے جانے کا پہلو ہی غالب دکھائی دیتا ہے۔

دوسری فضیلت: سیدنا صدیقِ اکبر  رضی اللہُ عنہ  کوجہنم سے بہت دور رکھا جائے گا، جیسا کہ آیت ہی میں فرمایا: (وَ سَیُجَنَّبُهَا) ترجمہ:  ”عنقریب اُس کو آگ سے دور رکھا جائے گا۔“ نیز صدیقِ اکبر  رضی اللہُ عنہ  تو ویسے بھی اُن ہستیوں میں سے ہیں، جن کے بارے میں فرمایا گیا کہ جہنم کی معمولی سی آہٹ تک نہ سنیں گے، جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:(اِنَّ الَّذِیْنَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِّنَّا الْحُسْنٰۤىۙ-اُولٰٓىٕكَ عَنْهَا مُبْعَدُوْنَۙ(۱۰۱) لَا یَسْمَعُوْنَ حَسِیْسَهَاۚ-وَ هُمْ فِیْ مَا اشْتَهَتْ اَنْفُسُهُمْ خٰلِدُوْنَۚ(۱۰۲)لَا یَحْزُنُهُمُ الْفَزَعُ الْاَكْبَرُ وَ تَتَلَقّٰىهُمُ الْمَلٰٓىٕكَةُؕهٰذَا یَوْمُكُمُ الَّذِیْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ(۱۰۳)) ترجمہ: بیشک جن کے لیے ہمارا بھلائی کا  وعدہ پہلے سے ہوچکا ہے وہ جہنم سے دور رکھے جائیں گے۔ وہ اُس کی ہلکی سی آواز بھی نہ سنیں گے اور وہ اپنی دل پسند نعمتوں میں ہمیشہ رہیں گے۔ انہیں سب سے بڑی گھبراہٹ غمگین نہ کرے گی اور فرشتے اُن کا اِستقبال کریں گے کہ یہ تمہارا وہ دن ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا۔  (پ17، الانبیاء:101تا103)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

تیسری فضیلت: جہنم سے دور رکھے جانے میں اُن کے لیے جنّتی ہونے کی بشارت بھی ہے کیونکہ جن کی نیکیاں اور برائیاں برابر ہیں، اُن میں سے بعض کےلیے تو مقامِ اَعراف ہے، جو جنت و جہنم کے درمیان ہے، لیکن اہلِ تقویٰ میں جسے جہنم سے بچنے کی بشارت ہو، اُس کےلیے دوسرا مقام جنت ہی ہے۔ قرآنِ مجید میں فرمایا: (فَمَنْ  زُحْزِحَ  عَنِ  النَّارِ  وَ  اُدْخِلَ  الْجَنَّةَ  فَقَدْ  فَازَؕ  ) ترجمہ: تو جسے آگ سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا تو وہ کامیاب ہوگیا۔ (پ4،آل عمران:185)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)  پھر خصوصاً تقویٰ نَفْس کی بری خواہشات سے بچنے ہی کا نام ہے اور ایسوں کیلئے جنت کی صریح بشارت ہے، چنانچہ قرآنِ مجید میں فرمایا: ( وَ اَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ وَ نَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوٰىۙ(۴۰) فَاِنَّ الْجَنَّةَ هِیَ الْمَاْوٰىؕ(۴۱) ) ترجمہ: اور وہ جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرا اور نفس کو خواہش سے روکا،تو بیشک جنت ہی ٹھکانہ ہے۔(پ30، النّٰزِعٰت:40، 41)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)  بلکہ جَنَّت کی اصل تیاری ہی متقین کیلئے ہے، چنانچہ قرآنِ مجید میں فرمایا: (  وَ  سَارِعُوْۤا  اِلٰى  مَغْفِرَةٍ  مِّنْ  رَّبِّكُمْ  وَ  جَنَّةٍ  عَرْضُهَا  السَّمٰوٰتُ  وَ  الْاَرْضُۙ-اُعِدَّتْ  لِلْمُتَّقِیْنَۙ(۱۳۳)  )  ترجمہ:اور اپنے رب کی بخشش اور اس جنت کی طرف دوڑوجس کی وسعت آسمانوں اور زمین کے برابر ہے۔ وہ پرہیزگاروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔(پ4، آل عمران:133)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

چوتھی فضیلت: سیّد المرسلین  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی امت میں سب سے بڑے متقی اور پرہیز گار حضرت ابو بکر صدیق  رضی اللہُ عنہ  ہیں کہ (الْاَتْقَىۙ      ) کا لفظ باتفاقِ امت آپ کےلیے ہے۔

پانچویں فضیلت: آیت سے آپ کا تمام امت سے افضل ہونا بھی معلوم ہوا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو سب سے بڑا متقی قرار دیا اور سب سے بڑے متقی کو اللہ رب العالمین نے خود ہی سب سے افضل و اکرم قرار دیا ہے، چنانچہ قرآنِ مجید میں فرمایا: ( اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْؕ ) ترجمہ: بیشک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت  والا وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہے۔(پ26، الحجرات:13)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)  ، نیز تقویٰ کا مقام دل ہے، جیسا کہ نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے فرمایا: وَالْاِيمَانُ فِي الْقَلْبِ، ثُمَّ يُشِيرُ بِيَدِهٖ اِلَى صَدْرِهٖ وَيَقُولُ: ‌اَلتَّقْوَى ھَاھُنَا، ‌اَلتَّقْوَى ھَاھُنَا ترجمہ: ایمان دِل سے متعلقہ مخفی چیز ہے۔ پھر آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کیا اور دو مرتبہ فرمایا: تقویٰ یہاں ہوتا ہے۔(مصنف ابنِ ابی شیبہ،6/159)

جب تقویٰ کا مقام دل ہے تو صدیق اکبر  رضی اللہُ عنہ  کے مبارک دل کا حال سنیے،امام غزالی علیہ الرَّحمہ نے بطور حدیث مرفوع اور حکیم ترمذی نے قول ِ ابوبکر بن عبداللہ المُزَنی کے طور پر نقل کیا، فرمایا: ما فضلكم ابو بكر ‌بكثرة ‌صيام ولا صلاة ولكن بسر وقر في صدره یعنی ابوبکر تم لوگوں سے نماز اور روزے کی کثرت کی وجہ سے آگے نہیں نکلے، بلکہ اُس چیز کی وجہ سے آگے نکلے ہیں، جوان کے دل میں قرار پکڑے ہوئے ہے،(یعنی قوتِ ایمانی، معرفتِ ربانی اور تقویٰ و خشیتِ الٰہی) (احیاء العلوم، 1/100) آپ  رضی اللہُ عنہ  کے تمام صحابہ  رضی اللہُ عنہم  سے افضل ہونے پر اہل ِسنت کا اِجماع ہے، چنانچہ عقائدِ نسفیہ میں ہے:افضل البشر بعد نبينا ابو بكر الصديق ثم عمر الفاروق ثم عثمان ذوالنورين ثم علي رضي اللہ عنهم وخلافتهم على هذا الترتيب ايضا یعنی  ہمارے نبی  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے بعد(امّتِ محمدیہ  میں ) سب سے افضل ابوبکر صدیق پھر عمر فاروق پھر عثمان ذوالنورین پھر علی المرتضی  رضی اللہُ عنہم  ہیں اور اُن کی خلافت بھی اِسی ترتیب سے ہے۔(العقائد النسفیۃ مع شرحہ للتفتازانی، ص321)

چھٹی فضیلت: حضرت ابو بکر صدیق  رضی اللہُ عنہ  کے تمام صَدقات و خیرات قبول اور اعلیٰ درجے کے اِخلاص پر مبنی ہیں، اِس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اُن کے راہِ خدا میں دئیے گئے ہر مال کے متعلق فرمایاکہ اس کا مقصد دِکھاوا اور ریاکاری نہیں، بلکہ (یَتَزَكّٰىۚ) ہے، یعنی ”تاکہ اسے پاکیزگی ملے“ اور اللہ تعالیٰ اچھی نیت والے کے عمل کو ضائع نہیں کرتا، چنانچہ فرمایا: (اِنَّ اللّٰهَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَۙ(۱۲۰)) ترجمہ:بیشک اللہ نیکی کرنے والوں کے اجر کوضائع نہیں فرماتا۔(پ11، التوبہ: 120)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)  پھرسیدنا ابوبکر صدیق  رضی اللہُ عنہ  کے مال خرچ کرنے پر بشارت دی کہ اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوجائے گا، چنانچہ فرمایا: (وَ لَسَوْفَ یَرْضٰى۠) ترجمہ:بیشک قریب ہے کہ وہ خوش ہوجائے گا۔(پ30، اللیل:21)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)  نیز آپ  رضی اللہُ عنہ  کے اعلیٰ درجے کے اخلاص کی گواہی اللہ تعالیٰ نے یوں دی ہے، فرمایا: ( اِلَّا ابْتِغَآءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْاَعْلٰىۚ) ترجمہ: صرف اپنے سب سے بلند شان والے رب کی رضا تلاش کرنے کے لیے(وہ اپنا مال خرچ کرتا ہے)۔(پ30، اللیل:20)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہُ عنہ کی رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے خوبصورت مشابہت !

اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابوبکر صدیق  رضی اللہُ عنہ  کو بطورِ خاص خوش کردینے کا مژدہ سناتے ہوئے فرمایا: ( وَ لَسَوْفَ یَرْضٰى ) اور بیشک قریب ہے کہ وہ خوش ہوجائے گا۔ یعنی بیشک قریب ہے کہ ابوبکر  رضی اللہُ عنہ  اُس نعمت وکرم سے خوش ہوجائیں گے جو اللہ تعالیٰ انہیں جنت میں عطا فرمائے گا۔(خازن، 4/385) اس بشارت میں ایک خوبصورت پہلویہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  سے ارشاد فرمایا: (وَ لَسَوْفَ یُعْطِیْكَ رَبُّكَ فَتَرْضٰىؕ(۵) ) اور بیشک قریب ہے کہ تمہارا رب تمہیں اتنا دے گا کہ تم راضی ہوجاؤ گے۔ (پ30،والضحیٰ:5)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)  اور صدیق اکبر  رضی اللہُ عنہ  کے لیے فرمایا: (وَ لَسَوْفَ یَرْضٰى) اور بیشک قریب ہے کہ وہ خوش ہوجائے گا۔طرزِ کلام دونوں مقبولوں سے یکساں ہے۔ سُبْحٰنَ اللّٰہ۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* نگران مجلس تحقیقات شرعیہ، دار الافتاء اہل سنت فیضان مدینہ کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code