کتابِ زندگی

فراڈیوں سے بچیں

* مولانا ابورجب محمد آصف عطاری مدنی

ماہنامہ جنوری2022

وہ ایک تعلیمی ادارے میں ٹیچر تھا ، امیرہونے کی خواہش اکثر اس کے دل میں ہلچل مچاتی رہتی تھی مگر کوئی راہ نہ نکلتی۔ آخرکار! ایک دن اسے اُمّید کی کِرن دکھائی دی ، اسے ایک شخص ملا جس نے اسے اپنے بزنس میں انویسٹمنٹ کی آفر کی اور ہر ماہ اچھا منافع دینے کا وعدہ کیا[1] ، اس شخص پر اعتبار کرتے ہوئے ٹیچر نے کسی نہ کسی طرح رقم کا انتظام کیا ، اپنے قریبی لوگوں (جن میں اس کے شاگرد بھی شامل تھے) کو بھی اچّھے نفع کالالچ دیا اورلاکھوں روپے جمع کر کے اس شخص کو جمع کروا دئیے۔ اب اسے ہرماہ نفع میں موٹی رقم وقت پر ملنے لگی جس میں سے وہ اپنی رقم کا سارا نفع خود رکھتا اور دوسروں کو بھی طے شدہ نفع کی رقم وقت پر دے دیتا  اور اپنا مارجن رکھ لیتا (مثلاً اسے ایک لاکھ کی رقم کے نفع میں کم وبیش چار ہزار ملتے تھے تو وہ دوسروں کو 3500 دے کر 500 روپے خود رکھ لیتا تھا)۔ دوچار مہینے اسی طرح گزرے ، ٹیچر کا اس شخص پر اور لوگوں کا ٹیچر پر اعتماد بڑھتا گیا ، یوں مزید رقم جمع ہوئی اور انویسٹمنٹ 80 لاکھ تک جاپہنچی۔ لیکن اگلے ہی مہینے وہ شخص غائب ہوگیا جس کے پاس ٹیچر نے اپنی اور لوگوں کی رقم جمع کروائی تھی۔ اب تو ٹیچر کو لینے کے دینے پڑ گئے کیونکہ نہ صرف اس بے چارے کی اپنی رقم ڈوبی بلکہ ان لوگوں کی بھی ڈوب گئی جنہوں نے رقم اس کو جمع کروائی تھی۔ اب لوگوں نے اس سے اپنی رقم کی واپسی کے تقاضے شروع کئے۔ ٹیچر کی عزت ، کیرئیر سب داؤ پر لگ گیا وہ اتنی بڑی رقم ایک دَم کہاں سے واپس کرتا! اس نے لوگوں کو وعدوں پر ٹالنا شروع کیا لیکن آخر کب تک ! اپنی عزت ، وقار اور جان بچانے کے لئے اپنا ذاتی گھر اورکچھ قیمتی سامان تک بیچ ڈالا لیکن جان مکمل نہ چُھوٹی ! ٹیچر کو رقم دینے والوں میں اس کا بہنوئی بھی شامل تھا ، جب اس نے رقم کی واپسی کا تقاضا شروع کیا تو ٹیچر نےاسے ہلکا لیا کہ یہ تو گھر کے آدمی ہیں لیکن بات اتنی بڑھی کہ اس کی بہن کو طلاق ہوگئی۔ یوں امیر بننے کی خواہش میں ایک فراڈئیے کے ہاتھوں اس ٹیچر کی زندگی برباد ہوکر رہ گئی۔

محترم قارئین ! یہ واقعہ کچھ عرصے پہلے پیش آیا تھا جسے اپنے الفاظ وانداز میں پیش کیا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آپ کے اردگرد بھی ایسے لوگ موجود ہوں جو کسی فراڈئیے کا شکار ہوئے ہوں۔ آگے بڑھنے سے پہلے اسی طرح کی چند مختصر خبریں پڑھ لیجئے :

(1)مختلف ویب سائٹس اور سوشل میڈیا کے ذریعے پاکستانی عوام کو چند ہزار روپے کے بدلے لاکھوں ڈالر دینے کا لالچ دے کر لُوٹنے والے 6 گروپس کے 20افراد پکڑے گئے۔ ان کے خلاف درخواست دینے والے صرف ایک شخص نے ان کے کہنے پر مختلف اکاؤنٹس میں مجموعی طور پر 41 لاکھ 90 ہزار روپے جمع کروائے تھے۔ [2]

(2)ایف آئی اے سائبر کرائم وِنگ نے جنوبی پنجاب کے ایک شہر میں چھاپہ مارکر دو بھائیوں کو گرفتار کیا ، ملزمان نے ایک شخص سے آن لائن سرمایہ کاری کے نام پرجھانسہ دے کر ایک کروڑ اور دس لاکھ روپے وصول کررکھے تھے۔ ملزمان پر غیر قانونی ویب سائٹ بناکر سادہ لوح لوگوں کو جھانسہ دینے اور آن لائن سرمایہ کاری کے نام پر رقمیں کھانے کا الزام ہے۔ [3]

(3) پشاور میں بنائی گئی ایک جعلی انویسٹمنٹ کمپنی نے صرف ایک سال میں لوگوں کو 5ارب 60کروڑ روپے کا چونا لگا دیا۔ اس کے زیادہ تر شکار بننے والے لوگوں میں رئیل اسٹیٹ ، ڈیجیٹل اور فارن کرنسی انویسٹرز شامل ہیں۔ کمپنی نے اپنی ایک ویب سائٹ بھی بنا رکھی تھی جو 20نومبر کو آف لائن ہو گئی اور اس پیج پر ایک پیغام نمودار ہو گیا کہ “ سسٹم ہیک کر لیا گیا ہے۔ “ بعد ازاں معلوم ہوا کہ کمپنی کا سسٹم ہیک نہیں ہوا بلکہ کمپنی ہی لوگوں کا سرمایہ لے کر رفوچکر ہو چکی ہے۔ [4]

یاد رکھئے!اس طرح کے لوگوں کا طریقۂ واردات یہ ہوتا ہے کہ دو ، چار یا چھ مہینے تک تو آپ کو باقاعدگی سے بغیر مطالبے کے وقت پر نفع دیتے رہیں گے ، لیکن پھر یا تو یہ غائب ہوجائیں گے یا نقصان کا رونا روئیں گے اورجو رقم آپ نے انہیں ایک ساتھ دی تھی وہ تھوڑی تھوڑی کرکے کئی سال میں دینے کا وعدہ کریں گے۔ اس طرح کے واقعات میں ہمارے سیکھنے کے لئے بہت کچھ ہے مثلاً :

(1)کبھی بھی ایسے شخص پر بھروسا نہ کریں جو بغیر کسی محنت ومشقت کے آپ کو تھوڑی سی رقم کے بدلے اتنا نفع دینے کا وعدہ کرے جس کا حقیقی کاروبار میں تصوّر بھی نہیں کیا جا سکتا ، یا لاکھوں کروڑوں کی زمین آپ کو چوتھائی قیمت پر دینے کا دعویٰ کرے ، لالچ میں آکر کبھی کوئی غلط قدم مت اٹھائیں ، چاہے اس شخص سے آپ کا رابطہ آن لائن ہوا ہویا آف لائن!

(2)جس نے آپ کو رقم انویسٹ کرنے کا آئیڈیا دیا وہ آپ کا کیسا ہی قریبی اور قابلِ بھروسا کیوں نہ ہو! اس سے یہ بھی پوچھ لیجئے کہ یہ کام آپ خود کررہے ہیں یا آپ بھی کسی اور کے پاس انویسٹ کریں گے ؟

(3)کسی کمپنی میں رقم انویسٹ کرنے سے پہلےاس کی قانونی حیثیت اور معاملات کا باریک بینی سے جائزہ لے کر تسلی کرلیں ، کسی تجرِبہ کار سے مشورہ کرلینا بھی آپ کو فائدہ دے گا۔

(4)اگر آپ نے بغیر کسی چھان بین کے رِسک لینے کا ارادہ کر ہی لیا ہے تو اپنی ذمّہ داری پر کسی اور کی رقم اس کے پاس انویسٹ نہ کروائیں کیونکہ اگر وہ رقم لے کر بھاگ جاتا ہے تو آپ کا اپنا مالی نقصان تو ہوگا ہی ، دوسرے بھی اپنی رقم کی وصولی کے لئے آپ کی جان کو آجائیں گے۔

 (5)اگر آپ کسی پراجیکٹ میں گھر بنانے یا سرمایہ کاری کے لئے زمین خریدنے جارہے ہیں تو دیکھ لیجئے کہ وہ زمین ڈویلپر نے خریدی ہوئی ہے یا صرف ابھی بکنگ کے عمل ہی سے گزر رہے ہیں۔ کتنی ڈویلپمنٹ ہوچکی ہے اور مزید جاری ہے یا نہیں؟ اس زمین کے حوالے سے کورٹ میں کیس تو نہیں چل رہا ؟ ماہرین کا کہنا ہے کہ پراپرٹی خریدنے میں کبھی بھی جلدی نہ کریں اور ہمیشہ مکمل دھیان سے اپنا پورا وقت لیں اور جب تک تسلی نہ ہو جائے سرمایہ کاری نہ کریں۔

فراڈیوں سے بچنے کی دیگر احتیاطوں کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی لازمی تسلی کرلیں کہ  یہ  پروجیکٹ  یا  انویسٹمنٹ  شرعی طور پر جائز بھی ہے یا نہیں ، چنانچہ کہیں بھی انویسٹمنٹ کرنے سے پہلے  دار الافتاء اہلِ سنّت (دعوتِ اسلامی)  سے اس کی شرعی راہنمائی بھی لے لیجئے۔

محترم قارئین ! فراڈیوں سے بچنے کے لئے اپنی آنکھیں اور کان دونوں کھلے رکھیں اور ایک اچھا مسلمان ہونے کا ثبوت دیں ، اللہ کے پیارے نبی  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ارشاد فرمایا : مؤمن ایک سوراخ سے دوبارہ نہیں ڈَسا جاتا۔ [5] جبکہ دھوکا دہی کرنے والے شخص کو پیارے آقا  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے اس فرمان  “ جو دھوکا دے وہ ہم میں سے نہیں[6] سے عبرت حاصل کرنا چاہئے۔

 اللہ کریم ہمیں فراڈیوں سے بچائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* اسلامک اسکالر رکن مجلس المدینۃ العلمیہ(اسلامک ریسرچ سنٹر) کراچی


[1] شرکت و مضاربت کرنے سے پہلے ان کی ضروری شرائط کا علم حاصل کرنا اور ان کے مطابق عمل کرنا لازمی ہے تاکہ کاروباری نفع جائز و حلال طریقے سے حاصل ہو ، اپنی مرضی سے نفع ونقصان کی شرائط لگانا اس عمل اور نفع کو ناجائز بناسکتا ہے چنانچہ کہیں بھی انویسٹمنٹ کرنے سے پہلے  دارُ الافتاء اہلِ سنّت  سے اس بارے میں شرعی راہنمائی بھی لے لیجئے۔

[2] ڈان نیوز ویب ، 26 اپريل 2020

[3] جنگ نیوز ، 30 جولائی 2021

[4] مختلف نیوز ویب سائٹس

[5] مسلم ، ص1222 ، حدیث : 7498

[6] مسلم ، ص64 ، حدیث : 283


Share

Articles

Comments


Security Code