اللہ کےحوالے

حدیث شریف اور اس  کی شرح

اللہ کےحوالے

*   ابوالحسن   عطاری مدنی

ماہنامہ صفر المظفر1442ھ

صَحابیِ رسول حضرت سیّدُنا عبدُاللہ بن یزید  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  جب کسی لشکر کو رُخصت کرنا چاہتے تو فرماتے : اَسْتَوْدِعُ اللهَ دِينَكُمْ وَاَمَانَتَكُمْ وَخَواتِيْمَ اَعْمَالِكُمْ یعنی میں تمہارے دِین ، تمہاری امانت اور تمہارے آخری اَعمال کو اللہ کے سپرد کرتا ہوں۔ ([i])

شرحِ حدیث : اَسْتَوْدِعُ اللهَ دِينَكُمْ : یعنی میں نے تمہارے دِین کو اللہ پاک کی حفاظت میں دیا کیونکہ سفر  كی مشقت اور پریشانیاں بندے  کو نیک اعمال سے غافل کردیتی ہیں اور نیک اعمال ہی ہیں جن میں اضافے کی برکت سے انسان کا دین مضبوط ہوتا ہے ، اسی لئے رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے دین اور نیک اعمال کی توفیق  کی مدد کی دعا فرمائی۔ ([ii])

وَاَمَانَتَكُمْ : یعنی تمہاری امانت کو اللہ کریم کے سپرد کیا كيونكہ سفر میں بندے کو دیگر لوگوں کے ساتھ لین دین  اور رہن سہن کی ضرورت بھی پڑتی ہے تو اس صورت میں کہیں کوئی خیانت نہ کر بیٹھے ۔  امانت سے مراد اہل و عیال  اور مال  بھی لیا گیا ہے  یعنی  تیرے اہل و عیال اور وہ لوگ جنہیں تو اپنے پیچھے چھوڑ کر جارہا ہے  اور تیرا مال جسے تونے حفاظت کے لئے کسی کے پاس امانت کے طورپر رکھوایا ہے ان سب چیزوں کو اللہ پاک کی حفاظت میں دیا۔ ([iii])

 وَخَواتِيْمَ اَعْمَالِكُمْ  : یعنی سفر سے پہلے تم نے جو آخری نیک عمل کیا میں اس عمل کو اللہ کریم کی حفاظت میں دیتا ہوں یا اس سے مراد خاتمہ بالایمان ہے۔ ([iv])

حکیمُ الاُمّت مفتی احمدیار خان نعیمی  رحمۃ اللہ  علیہ  فرماتے ہیں : اس دُعا میں لطیف اشارہ اس جانب بھی ہے کہ اے مدینہ میں میرے پاس رہنے والے! اب تک تو تُو میرے سایہ میں تھا کہ ہر مسئلہ مجھ سے پوچھ لیتا تھا ، ہر مشکل مجھ سے حل کرلیتا تھا اب تُو مجھ سے دور ہورہا ہے کہ ہر حاجت میں مجھ سے پوچھ نہ سکے گا تو تیرا  ہر  کام خدا  کے سپردہے۔ کیسی پیاری دعا ہے اور کیسی مبارک وَداع! آخر عمل سے مراد وقتِ موت ہے یعنی اگر  اس سفر میں تجھے موت آئے تو  ایمان پر آئے ، تیری زندگی و موت رب کے حوالے۔ ([v])

پیارے اسلامی بھائیو! اس حدیثِ پاک میں حضورِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا صحابۂ کرام  علیہمُ الرِّضوان  کو رخصت کرنے کا طریقہ بیان کیا گیا ہے ، جس سے یہ بھی درس ملتا ہے کہ  جب بھی اپنوں سے جُدا ہوں تو انہیں اللہ کےحوالے کردیں۔

حضرت سیِّدُنا حکیم لقمان  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں : “ جب کوئی چیز اللہ پاک کے سپرد کی جاتی ہے تو اللہ کریم اس کی حفاظت فرماتا ہے۔ “ کیونکہ بندہ بہت کمزور اور عاجز ہے اور اسے جو اسباب دیئے گئے ہیں وہ بھی اسی کی طرح کمزور ہیں تو جب بندہ اسباب سے پیچھا چُھڑا کر ان سے سبکدوشی اختیار کرتا ہے اور اپنی کمزوری کا اعتراف کرتے ہوئے کسی چیز کو اللہ پاک کی حفاظت میں دے دیتا ہے اور خود اس کی حفاظت سے بَری ہوکر اللہ کریم کو اس کا وکیل بنا دیتا ہے تو اللہ پاک اس چیز کی حفاظت فرماتا ہےاور اللہ کریم بہترین حفاظت فرمانے والا ہے۔ ([vi])

حکایت :  خلیفۂ دُوُم امیرُالمؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم  رضی اللہ عنہ  نے ایک شخص کو اس کے بیٹے کے ساتھ دیکھ کر فرمایا : “ میں نے کسی  کوے کو بھی اتنا مشابہ نہیں دیکھا جتنا یہ لڑکا تمہارے مشابہ ہے۔ “  اس شخص نے عرض کی : یا امیرَالمؤمنین!اللہکی قسم یہ قبر میں پیدا ہواہے۔ عمر فاروقِ اعظم  رضی اللہ عنہ سیدھے ہوکر بیٹھ گئے اور فرمایا مجھے اس کا واقعہ بتاؤ۔ اس شخص نے بیان کیا کہ  میں جہاد کے لئے روانہ ہورہا  تھا ، اس وقت اِس بچّے  کی ماں حاملہ تھی ، اس نے کہا : “ آپ مجھے اس حالت میں چھو ڑ کر جا رہے  ہیں؟ “ میں نے کہا : “ جو تمہارے پیٹ میں ہے میں نے اسے اللہ پاک کی امان میں دیا۔ “  جب میں واپس آیا تو میری بیوی کا انتقال ہو چکا تھا ،  میں رات کو اس کی قبر کے پاس رو رہا  تھا کہ اچانک میرے سامنے قبر پر آگ بلند ہوئی۔ میں نے کہا : اللہ کی قسم!  یہ تو پاک دامن ، روزہ دار اور راتوں کو قیام کرنے والی تھی ، میں کچھ ٹھہرا تو دیکھا کہ میرے سامنے قبر کھل گئی اور یہ بچہ اپنی ماں کے اردگرد کھیل  رہا تھا ، ایک آواز آئی : “ اے اپنے رب کو امانت دینے والے! اپنی امانت لے لے ، اگر اس کے ساتھ تو اس کی ماں کو بھی اللہ کی امان میں دے کر جاتا تو  دونوں کو پا لیتا “ ، میں نے بچے کو اٹھا لیا اور قبر بند ہوگئی۔ ([vii])

نوٹ : مذکورہ حکایت میں قبر کے خودبخود کھُل جانے کا ذکر ہے البتہ خودقبر کھولنے کےمتعلق شرعی مسئلہ بیان کرتےہوئے امیرِاہلِ سنّت فیضان نماز میں لکھتے ہیں : جب کبھی نمی یا پانی وغیرہ قبر میں آجائے تو کسی عاشقِ رسول مفتی کی اجازت کے بغیر ہرگز قبر نہ کھولی جائے۔ مزیدبعض اوقات مردہ خواب میں آ کر بتاتا ہے کہ میں زندہ ہوں !مجھے نکالو ! یا کہتا ہے : میری قبر میں پانی بھر گیا ہے ، مجھے یہاں پریشانی ہے!میری لاش کسی اور جگہ مُنتَقِل (Transfer) کر دو! وغیرہ ، چاہے بار بار اِس طرح کے خواب نظر آئیں ، خوابوں کی بنیاد پر’’قَبْر کشائی ‘‘یعنی قبر کھولنا جائز نہیں۔ ([viii]) 

امیرُالمؤمنین حضرتِ سیِّدُنا عمر بن عبد العزیز  رحمۃ اللہ علیہ  نے وفات سے قبل فرمایا : میرے بیٹوں کو میرے پاس لاؤ۔ وہ آئے تو انہیں دیکھ کر آپ  رحمۃ اللہ علیہ  کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں اور فرمایا : میں قربان جاؤں ، یہ بے چارے نَو عمر ہیں جنہیں کنگال چھوڑ کر جارہا ہوں ان کے پاس کچھ بھی تو نہیں۔ پھر روتے ہوئے فرمایا : میرے بیٹو! میں دوراہے پر کھڑا تھا ، یا تم مالدار ہوجاتے اور میں جہنم کا  ایندھن بن جاتا ، یا تم فقیر   ہوجاتے اور میں جنّت میں چلا جاتا ، میرے خیال میں میرے لئے یہی دوسرا راستہ بہتر تھا ، جاؤ! اللہ تمہارا حافظ و نگہبان ہو ، جاؤ! اللہ تمہارا حافظ و نگہبان ہو ، جاؤ! اللہ تمہیں رِزق دے گا۔ حضرت سیِّدُنا عبدُالرّحمٰن بن قاسم بن ابی بکر  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں کہ آپ نے  11بیٹے چھوڑ کر وفات پائی اور  کل تَرکہ 17دینار تھا جس میں سے کچھ دینار آپ کے کفن دفن میں خرچ  ہوئے اور بقیہ بیٹوں میں تقسیم ہوا ، ہر بیٹے کو 19دِرہم ملے  جبکہ  ہشام بن عبدُالملک بھی 11 بیٹے چھوڑ کر مرا اور جب اس کاتَرکہ تقسیم ہوا تو سب نے دس دس لاکھ پایا ،  لیکن میں نے حضرتِ سیِّدُنا عمر بن عبد العزیز  رحمۃ اللہ علیہ  کے ایک بیٹے کو دیکھا کہ ایک دن میں سو گھوڑے جہاد کے لئے پیش کئے اور ہشام کی اولاد میں سے ایک شخص کو دیکھا کہ لوگ اس بے چارے کوصَدقہ دے رہے ہیں۔ ([ix])

پیارے اسلامی بھائیو! حدیث مبارکہ اور اس کی شرح سے ہمیں درج ذیل مدنی پھول ملتے ہیں :

* جو چیز اللہ کی حفاظت میں دی جائے محفوظ رہتی ہے * جب بھی اپنوں سے جُدا ہوں تو انہیں اور مال جان سب کچھ اللہ کے سپردکردینا چاہئے * رخصت ہوتے وقت سلام کرنا سنّت ہے ، البتہ اس کے بعد “ خدا حافظ “ ، “ اللہ حافظ “ ، “ اللہ کے سپرد “  کہنے میں حرج نہیں بلکہ ایک طرح سے اس حدیث پاک پر عمل ہے۔

اللہ کریم  ہمیں اس حدیث پاک پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے ایمان ، اہل و عیال اور مال و جان کی حفاظت فرمائے۔                اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم



([i])   ابوداؤد ، 3 / 49 ، حدیث : 2601

([ii])   فیض القدیر ، 1 / 641 ، تحت الحدیث : 1007

([iii])   فیض القدیر ، 1 / 641 ، تحت الحدیث : 1007 ، مرقاۃ المفاتیح ، 4 / 1690 ، تحت الحدیث : 2435

([iv])   فیض القدیر ، 1 / 641 ، تحت الحدیث : 1007 ، مرقاۃ المفاتیح ، 4 / 1690 ، تحت الحدیث : 2435

([v])   مراٰۃ المناجیح ، 4 / 43ملتقطاً

([vi])   فیض القدیر ، 2 / 642 ، تحت الحدیث : 2403

([vii])   فیض القدیر ، 2 / 642 ، تحت الحدیث : 2403 ملخصاً

([viii])   (فیضانِ نماز ، ص369)

([ix])   سیرت ابن جوزی ، ص338 ، 321 ، سیرت ابن عبدالحکم ، ص98

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*   ماہنامہ  فیضانِ مدینہ ، کراچی

 

 


Share