احتیاط کیجئے

احتیاط کیجئے ( Be careful  )

*مولاناسید سمرالہدیٰ عطّاری یمنی

ماہنامہ فیضان مدینہ مئی 2023

اسلام اپنے ماننے والوں کو دنیا اور  آخرت دونوں کی بہتری کی تعلیمات دیتا ہے۔   زندگی کی بہتری کے لئے اسلامی تعلیمات  انسانی زندگی کا لازمی حصہ ہیں۔ خواہ انسان کی ذاتی زندگی  ( Personal life )  ہویامعاشرتی زندگی  ( Social life )  ، اسلام نے ہر ہر مرحلے کے اصول وقوانین مقرر فرما دئیے ہیں جن کی رعایت کرکے انسان نہ صرف اپنی زندگی کو خوشگوار و پُرسکون بناسکتاہے بلکہ پورا معاشرہ امن و سلامتی کا گہوارہ بن سکتا ہے۔ انسانی زندگی کےکئی گوشےہیں جن میں احتیاط برتنا نہایت ضروری ہے ان میں سے چندسےمتعلق احتیاطیں پیش کی جارہی ہیں۔

سوچ و  فکر  میں احتیاط :

سوچ و فکر میں  احتیاط یہ ہے  کہ انسان بلاوجہ اور بلادلیل کسی کے بارے میں ایسا گمان  نہ کرےکہ اپنی ہی زندگی اجیرن ہوکر رَہ جائے ، اللہ پاک نے ارشاد فرمایا : ( یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ ) ترجَمۂ کنز الایمان : اے ایمان والو بہت گمانوں سے بچو   )[1]( (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)  مثال کے طور پر دو لوگ باہم گفتگو کررہےہیں اور ہنس پڑے تو تیسرا شخص بلا دلیل یہ خیال دل میں پیدا نہ کرے کہ وہ میرے بارے میں بات کر رہے ہیں یا مجھ پر ہی ہنس رہے ہیں ، اسی طرح کسی کو کال کی لیکن اس نے کال ریسیو نہیں کی تو اس کے بارے میں بدگمان نہیں ہوجانا چاہئے کہ جان بوجھ کر کال اٹینڈ نہیں کررہا کیوں کہ ہوسکتا ہےکہ وہ نماز میں ہو یا ڈرائیو کررہا ہو یا کسی اہم کام میں مصروف ہو۔ یوں ہی کسی کی ظاہری صورت اور پہناوے کو دیکھ کر یہ گمان کرلینا کہ یہ  شخص کسی کام کا نہیں ہے ، یہ طرزِ عمل درست نہیں ، ہوسکتا ہے جس کی ظاہری صورت اور لباس کی وجہ سے اس کی صلاحیت کو تولنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ آپ سے کہیں زیادہ قابل اور باصلاحیت ہو۔

معاملات میں احتیاط :

اجتماعی زندگی میں ہمیں دوسروں کے ساتھ کئی طرح کے معاملات پیش آتے ہیں جیسےاجنبیوں کے ساتھ رہن سہن ، سفر ، کاروباری لین دین ، شادی بیاہ ، خوشی غمی میں شرکت وغیرہ امور کا سامنا رہتا ہے ان معاملات کو بہتر انداز سے چلانے میں بھی بڑی احتیاط کی حاجت ہوتی ہے اسی لئے حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : اِلْتَمِسُو ا الْجارَ قَبْلَ شِرَاءِ الدَّارِ وَالرَّفِیْقَ قَبْلَ الطَّرِیْقِ یعنی گھرخریدنے سے پہلے  ( اچھا )  پڑوسی تلاش کرو اور سفر پر جانے سے پہلے ( اچھا )  دوست تلاش کرو۔)[2](کہ دوست اور اطراف کا ماحول  انسان پر اپنے اثرات مرتب کرتا ہے۔ شادی کرنا چاہو تو پہلےدیکھ کے رشتہ کرو کیوں کہ یہاں سے انسان کی زندگی کے ایک نئے رُخ کاآغاز ہونے جارہا ہے۔ اسی طرح کسی لین دین ، کاروبار یا شراکت داری میں بھی خوب سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا چاہئے کہ بعد میں پچھتاوا  نہ ہو لہٰذا لین دین کیجئےتو گواہوں کی موجودگی میں اسے لکھ بھی لیں ، کوئی کاروباری معاہدہ طے پائے تو اسے بھی قانونی شکل دیں اور تمام احتیاطی تدابیر کریں کہ اسباب بروئے کار لائے بغیر توکل کرنا سمجھ داری و دینی مزاج کے خلاف ہے یہی وجہ ہے کہ حضور نے اونٹ والے سے فرمایا تھا کہ پہلے اس کو باندھو پھر توکل کرو۔)[3](

رہن سہن میں احتیاط :

اس میں کھانےپینے ، گفتگو کرنےاور ہروہ چیز جس کا  انسان کی انفرادی زندگی سے کوئی نہ کوئی واسطہ و تعلق ہے ان  کی احتیاطیں شامل ہیں ، کھانے پینے میں احتیاط یہ کہ اچھی غذا لے ، بھوک سے کم کھائے ، وقت پر کھائے ، کھانے پینے کی چیز میں پھونک نہ مارے ، زیادہ گرم کھانا نہ کھائے ، ٹیک لگاکر نہ کھائے وغیرہ۔وقت پر آرام کرے جسمانی صحت کا خیال رکھے اور اپنی جسمانی کیفیت کا وقتاً فوقتاً جائزہ لیتا رہے ، چلنے پھرنے میں احتیاط کرےقدموں کو جماکر باوقار انداز میں چلے ، نہ دوڑے کہ بدتہذیبی جھلکےاور نہ ہی اتنا آہستہ چلے کے سُست و کاہل کہاجائے ، گفتگو کرے تو زبان سےمحتاط  الفاظ ادا کرے سنجیدہ گفتگو کرے کہ گفتگو میں بےاحتیاطی دنیا و آخرت میں شرمندگی و ندامت کا باعث ہوگی ، اسی طرح احتیاط کاایک اہم پہلو یہ بھی کہ ملکی قوانین کا  احترام کیاجائےکہ یہ قوانین  کئی طرح کی احتیاطوں پر مبنی ہوتے ہیں اور باشندوں کی فلاح و بہتری کےلئےہی بنائے جاتےہیں۔

عبادات میں احتیاط :

اسلام کی روشن تعلیمات دیگر  تمام معاملات کی طرح عبادات میں بھی  احتیاط بیان کرتی ہیں جیسا کہ وضو کرنا ہے تو جن اعضا  کا دھونا فرض ہے تو پانی ان پر اچھی طرح بہہ جائے ، نماز میں  رکو ع و سجود اور دیگر ارکان احتیاط سے مکمل کئے جائیں ،  نماز کےا رکان پورے نہ کرنے والے کو نماز کا چور کہا گیا ہے جیسا کہ حضرتِ   ابوقتا دہ رضی اللہ عنہ سے روايت ہے کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : لوگو ں میں بد تر ین چور وہ ہے جو اپنی نَما ز میں چوری کر ے ، عر ض کی گئی : یا رسولَ اللہ ! نماز میں چوری کیسے ہوتی ہے ؟ فر مایا :  ( اس طرح کہ )  رُکُوع اور سَجدے پورے نہ کرے۔)[4](اسی طرح عبادات کو ریاکاری ، دکھلاوے ، تکبر وغیرہ کے ذریعے برباد ہونے سے بچانے کی بھی تعلیم دی گئی ہے۔

امیرِ اہلِ سنّت حضرت علامہ محمد الیاس عطّار قادری دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ فرماتے ہیں : ”محتاط آدمی ہمیشہ سکھی رہتا ہے۔“)[5](  لہٰذا سکھ پانے کے لئے اسلام کی  عطاکردہ احتیاطوں  پر دل وجان کے ساتھ عمل کیجئے اور  اسلام کی روشن تعلیمات کو اپنا لیجئے اللہ کی رحمت سے آپ کبھی دکھی نہیں ہوں گے۔اِن شاءَ اللہ الکریم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* شعبہ فیضانِ حدیث ، المدینۃ العلمیہ   Islamic Research Center



[1] پ26 ، حجرات : 12

[2] معجم کبیر ، 4 / 268 ، حدیث : 4379

[3] ترمذی ، 4 / 232 ، حدیث : 2525

[4] مسند احمد ، 37 / 319 ، حديث : 22642

[5] مدنی مذاکرہ ، 17اکتوبر2020


Share