اسلام ہی معیارِ زندگی ہے

اسلام  کی روشن تعلیمات

اسلام ہی معیارِ زندگی ہے

*مولانا ابوالنورراشد علی عطاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ مئی2023

اسلام ایک امن پسند ، کامل ترین ، لاجواب خوبیوں کا حامل ، انسانی طبیعت و فطرت کے عین مطابق ، آسمانی اور سچّا دین ہے۔  اس دین میں دنیوی ، اُخروی ، اخلاقی ، ظاہری ، باطنی ، گھریلو ، خاندانی ، معاشرتی ، معاشی الغرض ہر ہر لحاظ سے اور زندگی کے تمام شعبہ جات سےوابستہ افراد کے لئے راہنمائی موجود ہے۔ دینِ اسلام کی تعلیمات کو بہت گہرائی میں جاکر نہیں بلکہ صرف سَرسَری طور پر جاننے والے بھی فوراً سمجھ جاتے ہیں کہ انسانی زندگی گزارنے کا واحد ، مکمل ، معیاری اور آسان ذریعہ دینِ اسلام ہی ہے اسی لئے کہا جاتاہے کہ”اسلام مکمل ضابِطۂ حیات ہے۔ دینِ اسلام میں ہر ہر طبقے کے افراد بلکہ صرف انسانوں کے ہی نہیں جانوروں ، پرندوں ، حشرات اور درختوں تک کے حقوق بیان کئے گئے ہیں۔ جہاں تک انسانوں کے حقوق کی بات ہے تو یہ واحد دین ہے جو بچّوں ، جوانوں ، بوڑھوں ، بیویوں ، شوہروں ، بیٹیوں ، محارم رشتے داروں بلکہ یتیموں اور لاوارثوں تک کے حقوق بیان کرتا اور ان کی ادائیگی کا حکم دیتا ہے۔ جو لوگ مغرب اور جدید معاشروں کی ترقیوں سے متاثر ہیں وہ بھی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ مغرب میں خاندانی نظام ، والدین کا اکرام ، بہن بھائیوں اور محارم کے رشتوں کی پاکیزگی اور شرم و حیا کا نظام تباہ ہو چکا ہے۔ ایسے میں دینِ اسلام ہی نجات و کامیابی اور ذہنی ، قلبی اور اخروی سکون کا واحد ذریعہ ہے ، آئیے ذرا دینِ اسلام کی انسانیت نواز تعلیمات کی مختصر جھلک ملاحظہ کیجئے :

ماں باپ اور دینِ اسلام : غیراسلامی معاشروں میں ماں باپ اولاد کے ہاتھوں کس قدر اذیت اٹھاتے ہیں یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ جنہوں نے اولاد  کو دنیا میں پہلی سانس لینے سے جوان ہونے تک سنبھالا ، ناپاکی  و ستھرائی ہر حالت میں ساتھ رکھا انہی کو اولڈ ہاؤس میں داخل کروا دیا جاتا ہے۔ دینِ اسلام کی سچی کتاب قراٰنِ پاک میں ہے : (وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا ( ۲۳ )  وَ اخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَ قُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًاؕ ( ۲۴ ) )

ترجمۂ کنزالایمان : اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سُلُوک کرو اگر تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سےہُوں ( اُف تک ) نہ کہنا اور انھیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا اور ان کے لئے عاجزی کا بازو بچھا نرم دلی سے اور عرض کر کہ اے میرے رب تو ان دونوں پر رحم کر جیسا کہ ان دونوں نے مجھے چھٹپن ( چھوٹی عمر )  میں پالا۔ )[1] ( (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) اس لئے ضروری ہے کہ والدین کی خدمت کو سعادت سمجھا جائے اور ان کی نافرمانی سے بچا جائے۔

بیویاں اور دینِ اسلام : اللہ کریم نے بیویوں کے بارے  میں حکم فرمایا : (وَعَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِۚ-) ترجَمۂ کنز الایمان : اور ان سے اچھا برتاؤ کرو۔)[2](اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

 اس آیتِ کریمہ کی تفسیر میں ہے کہ کِھلانے پہنانے میں ، بات چیت میں اورزوجیت کےاُمورمیں  ( بیویوں کےساتھ اچھا برتاؤ کرو ) ۔ )[3](

اسی طرح حُضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : تم میں سے اچھے لوگ وہ ہیں جو اپنی عورَتوں  ( بیویوں ) سے اچھی طرح پیش آئیں۔)[4](

رشتۂ اخوت اور اسلام : والدین کے بعد بہنوں اور بھائیوں کا رشتہ بہت قریبی اور عزّت والا ہے۔ دینِ اسلام نے ان رشتوں کا بھی اکرام سکھایا ہے چنانچہ تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ باقرینہ ہے : حَقُّ كَبِيْرِ الْاِخْوَةِ عَلٰى صَغِيْرِهِمْ حَقُّ الْوَالِدِ عَلٰى وَلَدِهٖ یعنی بڑے بھائی کاحق اپنے چھوٹے بہن بھائیوں پر ایسا ہے جیساکہ باپ کاحق اپنی اولاد پر۔)[5](

چھوٹے بڑے کی تمیز اور اسلام : فرمانِ آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے : جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے ، ہمارے بڑوں کی عزّت نہ کرے اور ہماراحق نہ پہچانے ، وہ ہم سے نہیں۔)[6](

صِرف یہی نہیں بلکہ دیگر خونی رشتوں ، مسکینوں ، مسافروں ، پڑوسیوں اور مہمانوں تک کو بھی دینِ اسلام نے بہت اکرام دیا ہے چنانچہ قراٰنِ کریم میں ارشاد ہوتاہے : (فَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ وَ الْمِسْكِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِؕ-ذٰلِكَ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ یُرِیْدُوْنَ وَجْهَ اللّٰهِ٘-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ( ۳۸ ) )

ترجمۂ کنزالایمان : تو رشتہ دار کو اُس کا حق دو اور مسکین اور مسافر کو یہ بہتر ہے اُن کے لئے جو اللہ کی رضا چاہتے ہیں اور اُنہِیں کا کام بنا۔)[7]( (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

حکیم الْاُمّت مُفْتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہ علیہ اس آیتِ کریمہ کےتحت لکھتے ہیں : یہ آیتِ کریمہ تمام قَرابت داروں کے حُقوق ادا کرنے کا حکم دے رہی ہے ، اس سے معلوم ہوا کہ ہر رِشْتہ دار کا حق ہے ، اس میں تمام قرابت دارشامل ہیں اور اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قرابت داروں سے سُلوک اور صَدَقہ و خیرات نام و نُمود ، رَسْم کی پابندی سے نہ کرے ، محض رَبِّ کریم کی رِضا کے لئے کرے ، تب ثواب کا مستحق ہے۔)[8](

پڑوسی اور اسلام : پیغمبرِ اسلام صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : اس ذاتِ پاک کی قسم جس کے قبضۂ قدرت ميں ميری جان ہے ! بندہ اس وقت تک مؤمن نہيں ہو سکتا جب تک کہ اپنے پڑوسی  ( یا فرمایا : اپنےبھائی )  کے لئے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے۔)[9](

مہمان اور اسلام : فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے : جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہئے کہ اپنے مہمان کی عزّت کرے۔)[10](

مزدور اور اسلام : مزدوروں کے حقوق کی ادائیگی پر بھی اسلام نے بہت زور دیا ہے چنانچہ رسولِ رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : مزدور کا پسینہ خشک ہونےسے پہلےاس کی مزدوری اداکردو۔)[11](

محترم قارئین ! اسلام کی ان انمول تعلیمات کو ذہن نشین رکھئے اور ہمیشہ دینِ اسلام اور اس کی تعلیمات پر یقین و ایمان کے ساتھ کاربند رہئے۔ دینِ اسلام کے علاوہ کوئی مذہب نہ تو دنیا کے کسی شعبے میں حقیقی طور پر  کامیاب ہوسکتاہے نہ ہی آخرت میں کام آئے گا کیونکہ ربِّ کائنات نے واضح طور پر فرما دیا ہے کہ(اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ۫-) ترجَمۂ کنز الایمان :  بے شک اللہ کے یہاں اسلام ہی دین ہے۔ )[12]( (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

اپنے پیارے مذہبِ اسلام کی تعلیمات پر عمل کرتے ، ہر آن اپنے رب کی رضا کو تلاش کرتے ، اس کی اطاعت کرتے   اور گناہوں سے بچتے ہوئے زندگی کا سفر گزارنا ہی کامیابی ہے۔اللہ کریم ہم سب  کو ایمان پر خاتمہ نصیب فرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

میری زندگی بس تیری بندگی میں

ہی اے کاش گزرے سدا یا الٰہی !

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

*  فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ ، نائب ایڈیٹر ماہنامہ فیضانِ مدینہ کراچی



[1] پ15 ، بنی اسرائیل : 23-24

[2] پ4 ، النساء : 19

[3] خزائنُ العرفان ، ص159

[4] ابن ماجہ ، 2 / 478 ، حدیث : 1978

[5] شعب الایمان ، 2 / 210 ، حدیث : 7929

[6] معجم کبیر ، 11 / 355 ، حدیث : 12276

[7] پ 21 ، الروم : 38

[8] نورالعرفان ، ص651ملتقطاً

[9] مسلم ، ص48 ، حدیث : 171

[10] مسلم ، ص48 ، حدیث : 174

[11] ابن ماجہ ، 3 / 162 ، حدیث : 2443

[12] پ3 ، اٰلِ عمرٰن : 19


Share