نِظامِ احتساب

اسلام کا نظام

نظام احتساب

*مولانا فرمان علی عطاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ دسمبر 2024

دین ِاسلام نے انسان کی خیرو بھلائی اور فلاح وکامیابی کے لئے ایسے زریں اصول عطا کئے ہیں جن پر عمل کرنے سے بندہ دینی، دنیاوی، اخلاقی، روحانی، معاشی، معاشرتی اور خاندانی معاملات کو بہتر سے بہترین طریقے سےحل کرسکتا ہے۔ احتساب بھی دینِ اسلام کا ایک بنیادی اور اہم ترین اصول ہے جس کے ذریعے جرائم اور برائیوں کی روک تھام اور ظلم و سرکشی کا خاتمہ ہوتاہے اور معاشرے میں امن و استحکام اور عدل و انصاف کا بول بالا ہوتا ہے۔قراٰن وحدیث میں برائی سے روکنے اور نیکی کاحکم دینے کی صورت میں احتساب کا ثبوت موجود ہے، اس کے علاوہ خلفائے راشدین،مملکتِ اسلامیہ کے سلاطین اور بزرگانِ دین رحمۃُ اللہِ علیہم کی سیرت میں بھی احتساب کی عملی مثالیں پائی جاتی ہیں۔

احتساب کیا ہے؟ احتساب سے مراد یہ ہے کہ اس وقت نیکی کاحکم دینا جب اس کو چھوڑ دیا جائے اور برائی سے روکنا جب اس کو سرعام کیا جائے۔ ([i])

قراٰن اوراحتساب:قراٰنِ کریم کے نزول کا مقصد اُمّت کو برائی سےبچانا اور نیکیوں میں رغبت دلانا ہے،قراٰنِ پاک کی مختلف آیات میں اہلِ منصب و صاحبِ اقتدار افراد کو حکم ہے کہ لوگوں کو برائی سے روکیں اور بھلائی کا حکم دیں،چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:

(اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّكَّنّٰهُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتَوُا الزَّكٰوةَ وَ اَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِؕ-)

ترجَمۂ کنزُالایمان: وہ لوگ کہ اگر ہم اُنہیں زمین میں قابو دیں تو نماز برپا رکھیں اور زکوٰۃ دیں اور بھلائی کا حکم کریں اور برائی سے روکیں۔([ii])

اسی طرح جو صاحبِ منصب لوگ بُرائی کو نہیں روکتے ان کی مذمّت بیان کرتے ہوئے فرمایا:

(لَوْ لَا یَنْهٰىهُمُ الرَّبّٰنِیُّوْنَ وَ الْاَحْبَارُ عَنْ قَوْلِهِمُ الْاِثْمَ وَ اَكْلِهِمُ السُّحْتَؕ-لَبِئْسَ مَا كَانُوْا یَصْنَعُوْنَ(۶۳))

ترجَمۂ کنزُالایمان: انہیں کیوں نہیں منع کرتے اُن کے پادری اور درویش گناہ کی بات کہنے اور حرام کھانے سے بے شک بہت ہی برے کام کررہے ہیں۔ ([iii])

اس آیت کی روشنی میں عالِم پر واجب ہے کہ خود بھی سنبھلے اور دوسروں کو بھی سنبھالے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہُ عنہمافرماتے ہیں: قراٰنِ پاک میں (عُلما کے لئے) اس آیت سے زیادہ ڈانٹ ڈپٹ والی کوئی آیت نہیں۔([iv])

احتساب اور احادیث: قراٰنِ کریم میں توریت و انجیل کے حوالے سے نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے یہ اوصاف بیان ہوئے ہیں، ترجَمۂ کنزُالایمان: وہ انہیں بھلائی کا حکم دے گا اور برائی سے منع فرمائے گا اور ستھری چیزیں ان کے لئے حلال فرمائے گا اور گندی چیزیں اُن پر حرام کرے گا۔([v])

نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنی اس ذمہ داری کو بحسن و خوبی نبھایا اور زمانۂ جاہلیت کی تمام برائیوں کا خاتمہ فرماکر اسلام کی روشن تعلیمات کو عام فرمایا، نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جسے برائی میں مبتلا دیکھتے تو بحیثیتِ محتسبِ اعظم فوراً اس کی اصلاح وتربیت فرمادیا کرتے تھے،چنانچہ

نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ایک مرتبہ بازار تشریف لے گئے اور غلے کے ایک ڈھیر میں دستِ اقدس ڈال کر دیکھا تو وہ اندر سے گیلاتھا۔نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے(احتساب کرتے ہوئےاس)دکاندار سے پوچھا، یہ کیا ہے؟ اس نے عرض کی کہ یہ بارش سے بھیگ گیا ہے۔ ارشادفرمایا: تو تم نے اسے اوپر کیوں نہیں رکھا تاکہ ہر شخص کو نظرآجاتا (پھر فرمایا)۔ جو دھوکا دے وہ ہم میں سے نہیں۔([vi])

محتسب کون ہے؟ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور اس سے اس کے ماتحتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ امام (یعنی حکمران) نگران ہے اور اس سے اس کے ماتحتوں (یعنی عوام)کے متعلق پوچھا جائے گا، مرد اپنے گھر کا نگہبان ہے اس سے اس کے ماتحتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا، عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگہبان ہے اور اس سے اس کے متعلق پوچھا جائے گا، خادم اپنے آقا کے مال کا نگہبان ہے اور اس سے اس کے بارے میں بازپرس ہوگی (الغرض!) تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور اس سے اس کے ماتحتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا۔“ ([vii])

محتسب سے مراد ہر وہ شخص یا ادارہ ہے جس کے تحت کچھ افراد ہوں جن کی ذمہ داری اس فرد یا ادارے پر عائد ہوتی ہو اوروہ انہیں کسی بھی طرح برائی سے روکنے پر قادرہو،مثلاً حاکمِ وقت اپنی رعایاکے لئے محتسب ہے اگر وہ معاشرے میں کسی جرم کو بڑھتا ہوا یا شریعت کی خلاف ورزی دیکھے تو اپنے اختیار کو استعمال کرتے ہوئے اس کی روک تھام کا انتظام کرے، اسی طرح کسی ادارے کا منتظم بھی ادارے یا اپنے ملازمین کی خیرو بھلائی کے لئے ان کے احتساب کا حق رکھتا ہے،گھر کا سربراہ اور سرپرست جیسےوالد یا بڑا بھائی وغیرہ اپنے اہلِ خانہ کوبرائی سے روکنے اورانہیں نیکی کی طرف راغب کرنے کے لئے محتسب کا کردار ادا کرسکتا ہے،اگر کوئی عالمِ دین ہے توحتّی المقدور وہ معاشرے کی اصلاح وفلاح کی خاطر وعظ وبیان کے ذریعے لوگوں کو برائیوں سے روکےگا،اسی طرح ایک دوست اپنے دوست کو کسی برائی میں مبتلا دیکھے یا نیکیوں سے دور دیکھے تو روک ٹوک کرکے اس کی اصلاح کے لئے محتسب بن سکتا ہے۔

احتساب کیوں ضروری ہے؟ محتسب اداروں یا افراد کا کسی جرم کی سزا تجویز کرنا انہیں برائی سے روکنا،نیکیوں کی طرف مائل کرنا اور ان کا احتساب کرنا اس لئے ضروری ہےکہ جب کوئی ایسا کام جس پر شریعت یا قانون کی طرف سے ممانعت ہو اور اس کام کے مرتکب کو سزا دی جائے تو وہ معاشرے کے لئے عبرت کا نشان بن جاتا ہے اور آئندہ اس برائی کی طرف نہ وہ خود جائے گا اورنہ دیگر لوگ اس برے فعل کی طرف قدم بڑھاسکیں گے اس طرح کسی برائی سے روک ٹوک کرنے پر اسے شرمندگی ہوگی اور وہ آئندہ اس کام سے اجتناب کرے گا اور معاشرے سے برائی اور جرائم ختم ہوجائیں گے۔ اسی طرح وہ معاملات جو شریعت میں ممنوع ہیں اور اس کی وعید بیان کی گئی ہے تو اس پر روک تھام سے بھی معاشرے سے برائی اور گناہوں بھرا ماحول ختم ہوگا۔

اپنی ذات کا احتساب: محتسب خود بھی اپنی ذات کا احتساب کرے اور یوں غورو فکر کرے کہ مجھے جو ذمہ داری سونپی گئی ہے کیا میں اس پر پورا بھی اترتا ہوں یا مجھ سے بھی ان معاملات میں کوتاہی واقع ہوجاتی ہے،جیسے حاکم اپنی ذات کا یوں احتساب کرے کیامیں اپنے فرائض اور رعایا کے حقوق کماحقّہ ادا  کرتا ہوں،یامحض اپنے عہدے کی دھونس جما کر ان پر ظلم و ستم ہی کرتا ہوں،کیا میں ان کی ضرورتوں کے ساتھ ساتھ ان کی آسائشوں  کابھی کچھ خیال رکھتا ہوں؟اگر جانے انجانے میں کسی پر زیادتی ہوگئی تو کیا میں نے کبھی اس سے معافی مانگی؟ اسی طرح کسی ادارے کا مہتمم و منتظم بھی غور کرے کہ میں اپنے ماتحتوں کومحض اپنے عہدہ و منصب کی آڑ میں بلاوجہ روک ٹوک تو نہیں کرتا اور انہیں اپنی ذات سے بدظن تو نہیں کرتا، ادارے کے منتظم کا یہ رویہ اس کے ماتحتوں کو بغاوت پر ابھار سکتا ہے لہٰذا اسے چاہئے کہ اپنی ذمہ داری کو شریعت کے مطابق پورا کرے اور اپنے منصب کے نشے میں مدہوش رہ کر صرف اپنے مفاد کیلئے کوشش نہ کرے بلکہ اپنے ملازمین ومعاونین کے حق کے لئے بھی آواز اٹھائے، اور ان کی ضروتوں کو پورا کرنے کے لئے حقیقی کوشش بھی کرے، صرف اپنی باتوں سے قائل کرکے خاموش کروا دینے سے نفرت و مخالفت پیدا ہوتی ہے۔ اسی طرح گھر کا سربراہ، سرپرست اور دیگر محتسبین کو بھی سوچنا چاہئے کیونکہ اگر ہم نےعہدے،منصب اور ذمہ داری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دنیا میں کسی کاحق مارا،کسی کو اپنے عہدے کی بدولت ناجائز ستایا،کسی پر ظلم وستم کردیا،تو بروزِ قیامت مجھے اس کا حساب دینا ہوگا نیز اگرمجھے دوسروں پر کچھ قدرت حاصل ہے تو اس سے زیادہ اللہ پاک مجھ پر قادر ہے اگر میں نے کسی کی دل آزاری یا حق تلفی کی توقیامت کے دن اللہ پاک کے غَضَب سے میں کس طرح محفوظ رہ سکوں گا۔

اہلِ خانہ کا احتساب:والد،بڑا بھائی یا خاندان کا ایسا فرد جس کی بات سنی جاتی ہو اور وہ اپنے گھر اور خاندان میں کسی برائی کو روکنے کی استطاعت رکھتا ہوتو گھر اور خاندان کی دنیاوی اور اخروی بھلائی کے لئے ان کا احتساب کرے،بیوی،بیٹی، بہن اور دیگر خواتین کو پردے کی تلقین کرے،نماز کی پابندی کا ذہن دے، جھوٹ غیبت چغلی،بہتان طرازی وغیرہ برائیوں کی مذمت بتائے اور آئندہ ان گناہوں سے باز رہنے کی تنبیہ کرے، بچوں کو چھوٹی عمر سے ہی اچھے برے کی تمیز سکھائے، ان کی اچھی تعلیم وتربیت کااہتمام کرے،انہیں نیکی کی دعوت دے اور برائی سے منع کرے تاکہ یہ خود اور اس کے گھر والے آخرت کی رسوائی اور اس کے عذاب سے محفوظ رہ سکیں، قراٰنِ کریم میں ارشاد ہوتا ہے:

(یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ)

ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کے ایندھن آدمی اور پتھر ہیں۔ ([viii])

اسی طرح گھر والوں کے علاوہ قریبی رشتہ داروں کی اصلاح کے لئے یہ حکم دیا گیا:

(وَ اَنْذِرْ عَشِیْرَتَكَ الْاَقْرَبِیْنَۙ(۲۱۴))

ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اے محبوب اپنے قریب تر رشتہ داروں کو ڈراؤ۔([ix])

عام مسلمانوں کا احتساب :ہرمسلمان اپنی اپنی جگہ مبلغ اور محتسب ہے خواہ وہ کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتا ہو، یعنی وہ عالم ہو یا امام مسجد، پیر ہویا مرید،تاجر ہو یا ملازم،افسر ہویامزدور، حاکم ہو یا محکوم، الغرض جہاں جہاں وہ رہتا ہو، کام کاج کرتا ہو، اپنی صلاحیت اور استطاعت کے مطابق اپنے گرد و پیش کے ماحول سے برائی کو ختم کرنے یا روکنے کاذمہ دار ہے قراٰن ِ کریم میں ارشاد ہوتاہے:

(وَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍۘ-یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ )

ترجَمۂ کنزُالایمان: اور مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق ہیں  بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے منع کریں ۔([x])

ہر ایک کا یکساں احتساب کیا جائے: اسلامی نظامِ احتساب کی یہ خصوصیت ہے کہ اس میں جرم کی سزا سب کے لئے برابر ہے چاہے مجرم امیر ہو یاغریب، حاکم ہو یاعوام،گورا ہو یا کالا ہر ایک کو اس کے جرم کی سزا بھگتنی پڑے گی اس کونہ تو اس کا عہدہ و منصب اور جان پہچان بچا سکتی ہےاور نہ اس کےحسب نسب کی عظمت اس کی جان چھڑا سکتی ہے،جوبھی اسلامی قانون کی خلاف ورزی کرے گاسزا کا حقدار ہوگا،نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سب سے بڑے محتسب اور اسلامی قوانین کے پاسدار تھے حضور کی سیرتِ طیبہ میں اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں، نبیِّ پاکصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنے قریبی لوگوں کے ساتھ اس طرح کے معاملات میں کسی قسم کی رعایت نہیں فرماتے تھے بلکہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ذات سے اگر کوئی قصاص کا مطالبہ کرتا تو اس کو قصاص دینے کے لئے تیار ہوجاتے تھے جیساکہ ایک دن نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم غنیمت تقسیم فرمارہے تھے ایک شخص آیا اور حضور پر جھک گیا۔نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کھجور کی سوکھی شاخ سے جو آپ کے دستِ مبارک میں تھی اسے ٹھوکا دیا جس سے اس کے منہ پر خراش آگئی۔ نبیِّ رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ تم مجھ سے قصاص لے لواس نے عرض کیا: ’’یارسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں نے معاف کردیا۔“([xi])

ایک دفعہ خاندان مخزوم کی ایک عورت نے چوری کی، قریش نے چاہا کہ وہ حد سے بچ جائے۔ انہوں نے حضرت اُسامہ بن زید رضی اللہُ عنہما سے جو رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے محبوبِ خاص تھے درخواست کی کہ آپ سفار ش کیجئے۔ چنانچہ حضرت اُسامہ رضی اللہُ عنہ نے رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے سفارش کی۔آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: ’’تم حد میں سفارش کرتے ہو! تم سے پہلے لوگ (بنی اسرائیل) اسی سبب سے تبا ہ ہوئے کہ وہ غریبوں پر حد جاری کرتے اور امیروں کو چھوڑدیتے۔خدا کی قسم ! اگر فاطمہ بنتِ محمد (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) بھی ایسا کرتی تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دیتا۔“([xii])

احتساب اور صحابۂ کرام:نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے تربیت و صحبت یافتہ صحابۂ کرام نے بھی اپنے اپنے دورِ اقتدار میں احتساب کے اہم فریضے کو بحسن وخوبی انجام دیا، جیسا کہ حضرت سیّدنا فاروقِ اعظم رضی اللہُ عنہ امورِ خلافت سے متعلق نہ صرف عام لوگوں کا احتساب فرماتے بلکہ آپ نے جن لوگوں کو حاکم وگورنربنایاخود بھی ان کا احتساب کرتے اور عوام کو بھی فری ہینڈ دے رکھا تھا کہ عوام میں سے کوئی بھی کسی بھی عامل (یعنی گورنریاحاکم) کے خلاف شکایت کرسکتا تھا۔ جس کے خلاف شکایت ہوتی اگر وہ عامل قریب ہوتا تو آپ اُسے فوراً بلاتے اور پوچھ گچھ فرماتے اور اگر وہ کہیں دور علاقے میں ہوتا تو بذریعہ خط و کتابت اُس سے پوچھ گچھ فرماتے۔([xiii])

 اسی طرح بزرگانِ دین کے مبارک دور میں بھی حاکمِ اسلام کی طرف سے ایک محتسب مقرر ہوتا تھا جو بازاروں میں خرید و فروخت کے معاملات کو دیکھتا تھا اگر کہیں خلافِ شریعت بات دیکھتا تو اس سے پوچھ گچھ کرتا تھا جیساکہ حضرت سیدنا ابو محمد رحمۃُ اللہِ علیہ کا بیان ہے: میں نے مغرب کےوقت محتسب کو بازاروں میں گھومتے دیکھا،وہ ہر دکان پر ٹھہرکر دکان دار سے ان احکام کے متعلق پوچھتا جو سامان تجارت کے متعلق اس پر سیکھنا لازم ہیں اور یہ بھی پوچھتا کہ اس میں سود کس طرح شامل ہوجاتا ہے اور اس سے کیسے بچا جاسکتا ہے؟ اگر وہ صحیح جواب دیتا تو اسے دکان داری کرنے دیتا ورنہ اسے دکان سے کھڑا کردیتا اور کہتا: ہم تمہیں مسلمانوں کے بازار میں نہیں رہنے دیں گے، تم مسلمانوں کو سود اور ناجائز چیزیں کھلاؤ گے۔([xiv])

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ شعبہ ماہنامہ فیضانِ مدینہ کراچی



([i])الاحکام السلطانیہ،ص240

([ii])پ17،الحج:41

([iii])پ6،المائدۃ:63

([iv])خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: 63، 1/ 509

([v])پ9،الاعراف :157

([vi])مسلم، ص64، حدیث: 284

([vii])بخاری،3/464، حدیث:5200

([viii])پ28،التحریم:6

([ix])پ19،الشعراء:214

([x])پ10،التوبہ:71

([xi])ابو داؤد،4/241،حدیث:4536

([xii])بخاری، 2/468، حدیث:3475

([xiii])الاوائل للعسکری،ص172

([xiv])المدخل لابن الحاج مکی،1/114


Share

Articles

Comments


Security Code