قراٰنِ پاک اور اہلِ یمن (قسط:03)

تاریخ کے اوراق

قرآن پاک اور اہل یمن (قسط:03)

*مولانا محمد آصف اقبال عطّاری مدنی

ماہنامہ فیضان مدینہ دسمبر2023


قراٰنِ کریم میں مختلف مَقامات پر اہلِ یمن کا تذکرہ آیا ہے، یہاں چند آیات اور ان کی تفسیر بیان کی جاتی ہے:

(1)یمن والے اللہ پاک کے پیارے

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

(یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَنْ یَّرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِیْنِهٖ فَسَوْفَ یَاْتِی اللّٰهُ بِقَوْمٍ یُّحِبُّهُمْ وَ یُحِبُّوْنَهٗۤۙ-اَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ اَعِزَّةٍ عَلَى الْكٰفِرِیْنَ٘-یُجَاهِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ لَا یَخَافُوْنَ لَوْمَةَ لَآىٕمٍؕ-ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ یُؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ(۵۴))

ترجَمۂ کنز الایمان: اے ایمان والو تم میں جو کوئی اپنے دین سے پھرے گا تو عنقریب اللہ ایسے لوگ لائے گا کہ وہ اللہ کے پیارے اور اللہ ان کا پیارا مسلمانوں پر نرم اور کافروں پر سخت اللہ کی راہ میں لڑیں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا اندیشہ نہ کریں گے یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے دے، اور اللہ وسعت والا علم والا ہے۔ ([1]) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

صدرُ الْاَفاضِل مفتی سیّد نعیمُ الدّین مراد آبادی رحمۃُ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:ایک قول یہ ہے کہ یہ لوگ اہلِ یمن ہیں جن کی تعریف بخاری و مسلم کی حدیثوں میں آئی ہے۔([2])

(2)یمن والوں کے ذریعے اہلِ مکّہ کی مدد و نُصرت

مشرکین کو حج سے روک دینے کا حکم آیا تو تجارت میں نقصان کا اندیشہ اور محتاجی کا ڈر پیدا ہوا تو اللہ پاک نے مسلمانوں کو بے خوف کرنے کے لئے اپنی خاص مدد کا وعدہ فرمایا اور وہ مدد اہل یمن کے ذریعے ظاہر ہوئی۔ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:

(یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ فَلَا یَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هٰذَاۚ-وَ اِنْ خِفْتُمْ عَیْلَةً فَسَوْفَ یُغْنِیْكُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖۤ اِنْ شَآءَؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ(۲۸))

ترجَمۂ کنز الایمان: اے ایمان والو مشرک نرے (بالکل) ناپاک ہیں تو اس برس کے بعد وہ مسجد حرام کے پاس نہ آنے پائیں اور اگر تمہیں محتاجی کا ڈر ہے تو عنقریب اللہ تمہیں دولت مند کردے گا اپنے فضل سے اگر چاہے بیشک اللہ علم و حکمت والا ہے۔([3])

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

محتاجی کے ڈر سے مراد یہ ہے کہ اگر تمہیں محتاجی کا ڈر ہے کہ مشرکین کو حج سے روک دینے سے تجارتوں کو نقصان پہنچے گا اور اہلِ مکہ کو تنگی پیش آئے گی تو عنقریب اللہ اپنے فضل سے اگر چاہے گا تو تمہیں دولت مند کردے گا۔ حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایسا ہی ہوا اللہ تعالیٰ نے انہیں غنی کردیا، بارشیں خوب ہوئیں اور پیداوار کثرت سے ہوئی۔ مقاتل نے کہا کہ یمن کے لوگ مسلمان ہوئے اور انہوں نے اہلِ مکہ پر اپنی کثیر دولتیں خرچ کیں۔([4])

(3)یمن میں معجزۂ سُلَیمانی کا ظہور

حضرت سلیمان علیہ السّلام کو عطا فرمائے گئے معجزات میں سے ایک پگھلے ہوئے تانبے کا چشمہ بھی تھا، اس معجزے کے ظہور کا مقام یمن میں تھا۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:

(وَ لِسُلَیْمٰنَ الرِّیْحَ غُدُوُّهَا شَهْرٌ وَّ رَوَاحُهَا شَهْرٌۚ-وَ اَسَلْنَا لَهٗ عَیْنَ الْقِطْرِؕ-وَ مِنَ الْجِنِّ مَنْ یَّعْمَلُ بَیْنَ یَدَیْهِ بِاِذْنِ رَبِّهٖؕ-وَ مَنْ یَّزِغْ مِنْهُمْ عَنْ اَمْرِنَا نُذِقْهُ مِنْ عَذَابِ السَّعِیْرِ(۱۲))

ترجَمۂ کنز الایمان : اور سلیمان کے بس میں ہوا کردی اس کی صبح کی منزل ایک مہینہ کی راہ اور شام کی منزل ایک مہینے کی راہ اور ہم نے اس کے لیے پگھلے ہوئے تانبے کا چشمہ بہایا اور جنّوں میں سے وہ جو اس کے آگے کام کرتے اس کے رب کے حکم سے اور جو ان میں ہما رے حکم سے پھرے ہم اُسے بھڑ کتی آگ کا عذاب چکھائیں گے۔([5])

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

مفسرینِ کرام فرماتے ہیں کہ تانبے کا یہ چشمہ تین دن تک سَرزمینِ یمن میں پانی کی طرح جاری رہا۔ایک قول یہ ہے کہ وہ چشمہ ہر مہینے میں تین دن جاری رہتا تھا۔([6])

(4)سَرزمینِ یمن میں عبرت کے نشانات

یمن ان مَمالک میں سے ہے جہاں سابقہ تباہ شدہ اقوام کے آثار ملتے ہیں چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

(اَوَ لَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَ كَانُوْۤا اَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةًؕ-وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُعْجِزَهٗ مِنْ شَیْءٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَ لَا فِی الْاَرْضِؕ-اِنَّهٗ كَانَ عَلِیْمًا قَدِیْرًا(۴۴))

ترجَمۂ کنز الایمان : اور کیا انہوں نے زمین میں سفر نہ کیا کہ دیکھتے اُن سے اگلوں کا کیسا انجام ہوا اور وہ اُن سے زور میں سخت تھے اور اللہ وہ نہیں جس کے قابو سے نکل سکے کوئی شے آسمانوں اور زمین میں بے شک وہ علم و قدرت والا ہے۔([7])

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

یعنی کیا کفار ِمکہ نے شام،عراق اور یمن کے سفروں میں انبیاء ِکرام علیہم الصّلوٰۃ والسّلام کو جھٹلانے والو ں کی ہلاکت وبربادی اور ان کے عذاب اور تباہی کے نشانات نہیں دیکھے؟ ([8])

(5)سفر ِحج اور اہلِ یمن

سفر ِحج دراصل عبادت کے لئے ہے،لہٰذا صحابۂ کرام کو اس دوران تجارت کرنے سے اخلاص کے معاملے میں تشویش لاحق ہوئی تو اللہ پاک نے اس سفر میں بھی تجارت کی اجازت مَرحَمت فرمائی اور اس کا سبب اہلِ یمن بنے۔ چنانچہ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:

(وَ تَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوٰى٘-وَ اتَّقُوْنِ یٰۤاُولِی الْاَلْبَابِ(۱۹۷) لَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّكُمْؕ-)

ترجَمۂ کنز الایمان : اور توشہ(سفر کا خرچ) ساتھ لو کہ سب سے بہتر توشہ پرہیزگاری ہے، اور مجھ سے ڈرتے رہو اے عقل والو۔ تم پر کچھ گناہ نہیں کہ اپنے رب کا فضل تلاش کرو۔([9])

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان حنفی قادری رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں: یمن کے کچھ لوگ بے زادِ راہ لیے حج کو آتے اور کہتے ہم مُتَوَکِّل ہیں، ناچار بھیک مانگنی پڑتی، حکم آیا توشہ ساتھ لیا کرو۔ کچھ اصحابِ کرام نے موسمِ حج میں تجارت سے اندیشہ کیا کہ کہیں اخلاصِ نیت میں فرق نہ آئے۔ فرمان آیا کچھ گناہ نہیں کہ تم اپنے رب کا فضل ڈھونڈو۔ اسی طرح تلاشِ فضلِ الٰہی کی آیتیں بکثرت ہیں۔([10]) (بقیہ اگلے ماہ کے شمارے میں)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

*(فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ، شعبہ تراجم، المدینۃ العلمیہ کراچی)



([1])پ6،المائدۃ:54

([2])خزائن العرفان،ص211

([3])پ10،التوبہ:28

([4])تفسیرخازن، 2/229،پ 10،التوبۃ،  تحت الاٰیۃ:28، خزائن العرفان، ص344

([5])پ22،سبا:12

([6])تفسیر خازن،3/518

([7])پ22،فاطر:44

([8])تفسیرمدارک، فاطر، تحت الآیۃ: 44، ص982

([9])پ2، البقرۃ: 197، 198

([10])فتاوٰی رضویہ، 29/ 319


Share

Articles

Comments


Security Code