24حقیقتیں (تیسری اور آخری قسط)

کتابِ زندگی

حقیقتیں (تیسری اور آخری قسط)

*مولاناابو رجب محمد آصف عطّاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ دسمبر2023ء

 (40)قناعت کا مال ختم نہیں ہوتا(Contentment never ends)

لوگ مال کمانے اور خرچ کرنے کے ساتھ ساتھ سونا، چاندی اور غیر ملکی کرنسی وغیرہ کی صورت میں بھی مال جمع کرتے ہیں تاکہ فوری ضرورت میں کام آسکے اور پریشانی نہ ہو مگر یہ مال بھی ایک دن ختم ہوجاتا ہے، لیکن قناعت وہ مال ہے جو ختم نہیں ہوتا۔ صادق و امین نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے یہ سچی حقیقت ان الفاظ میں بیان فرمائی ہے:عَلَیْکُمْ بِالْقَنَاعَۃِ فَاِنَّ الْقَنَاعَۃَ مَالٌ لَا یَنْفَدُ ترجمہ: تم پر قناعت کو اختیار کرنا لازم ہے کیونکہ قناعت ایسا مال ہے جو ختم نہیں ہوتا۔([1])

علّامہ عبدُ الرءوف مَناوی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں: قناعت کا مطلب ہے کم پر راضی رہنا، اسے جتنا خرچ کرے یعنی جس قدر قناعت سے کام لے گا یہ ختم نہ ہوگی، جتنی بھی دنیاوی پریشانی آئے گی قناعت کرنے والا اس پر راضی رہے گا۔ مزید فرماتے ہیں: قناعت ایمان کی قوت اور (اللہ پر) یقین میں اضافے کی بدولت بے نیاز دل میں پیدا ہوتی ہے، اگر کوئی قناعت کرے تو برکت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔([2])

ہمیں چاہئے کہ سیونگ کے دیگر ذرائع اپنانے کے ساتھ ساتھ قناعت کی دولت سے بھی حقیقی طور پر مالا مال ہوجائیں، یہ دولت طرح طرح کے مالی بحرانوں میں ہمارے کام آئے گی وہ اس طرح کہ جس طرح جیب میں مال ہونے کی وجہ سے دل و دماغ سکون میں ہوتے ہیں وہی سکون ہمیں قناعت کے نتیجے میں ملے گا اور ہم پریشانیوں کا سامنا اچھے طریقے سے کرسکیں گے، اِنْ شآءَ اللہ۔

(41) نیک لوگ رازدار ہوتے ہیں(Good people are secretive)

حضرت علیُّ المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:”قُلُوْبُ الْاَبْرَارِ قُبُوْرُ الْاَسْرَار“ ترجمہ: نىک لوگوں کے دل رازوں کى قبرىں ہوتے ہىں۔ (ىعنى جس طرح قبر مىت کو اپنے اندر چھپائے رکھتى ہے، اسى طرح نىک لوگ رازوں کو اپنے دل میں محفوظ رکھتے ہىں۔)([3])

لہٰذا ہمیں چاہئےکہ ضرورتاً اپنے راز نیک لوگوں سے شیئر کریں ورنہ ہر کسی کو راز بتانا کہیں ہمیں آزمائش میں نہ ڈال دے۔

(42)مداخلت کسی کو اچھی نہیں لگتی(No one likes interference)

کوئی بھی اپنے ذاتی معاملات میں کسی کی غیرضروری مداخلت پسند نہیں کرتا، کاروباری دوست، آفس مینجمنٹ کے افراد یا میاں بیوی اکیلے میں بحث و تکرار کررہے ہوں تو بلاضرورت ان کی باتیں غور سے سننے اور ان کے درمیان میں کُود پڑنے کے بجائے نظر انداز کردینا چاہئے اس لئے کہ بعض اوقات بات دو افراد کے درمیان رہے تو ختم ہونے کا چانس زیادہ ہوتا ہے لیکن تیسرا شخص شامل ہوجائے تو بات بڑھنے کا چانس زیادہ ہوتا ہے۔ حضرتِ شیخ سعدی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں: میں نے ایک دانشور (یعنی اہلِ علم) کے بارے میں یہ سنا کہ وہ کہا کرتے تھے کہ کوئی شخص بھی اپنی جہالت کا اقرار نہیں کرتا سوائے اُس شخص کے کہ جب کوئی دوسرا بات کررہا ہوتا ہے تو اُس کی بات ختم ہونے سے پہلے ہی بیچ میں اپنی بات شروع کردیتا ہے۔سمجھدار آدمی اُس وقت تک اپنی بات شروع نہیں کرتا جب تک دوسرے کی بات ختم نہ ہو جائے۔([4])

(43)صورت اچھی ہوتو سیرت اچھی ہونا ضروری نہیں

محض کسی کی خوبصورتی دیکھ کر اس کے حُسنِ اخلاق کا فیصلہ نہیں کیا جاسکتا ہے بلکہ اس کے کردار وعمل کا مشاہدہ اور تجربہ کرنے کے بعد ہی حتمی رائے قائم کی جاسکتی ہے۔حضرت شیخ سعدی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ضروری نہیں کہ جس کی صورت اچھی ہو اس کی سیرت بھی اچھی ہو، کیونکہ واسطہ سیرت سے پڑتا ہے، کھال سے نہیں۔([5])

(44)دوسروں کو اُصولوں کا پابند بنانے کا طریقہ(How to make others abide by the rules)

امیرِ اہلِ سنّت دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ فرماتے ہیں: کسی کو اُصول کا پابند بنانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ خود اُصول کے پابند بن جائیں۔

(45)بعض اوقات پریشانیاں حالات کی وجہ سے نہیں خیالات کی وجہ سے ہوتی ہیں۔

(46)موتی اگر کیچڑ میں گر جائے تو بھی نفیس (قیمتی) ہی رہتا ہے اور غُبار آسمان پر چڑھ کر بھی کَثِیف(بے قیمت) ہی رہتا ہے۔

(47)پیغام پہنچانے والا ضروری نہیں آپ ہی کےالفاظ اور لہجے میں پیغام پہنچائے۔

(48)خوشیاں خود بخود جھولی میں نہیں آن گرتیں بلکہ غموں کے سمندر سے خوشیوں کی سیپیاں تلاش کرنا پڑتی ہیں۔

(49)فیصلہ آپ کا ذاتی ہے تو اس کے نتائج کا سامنا بھی آپ ہی کو کرنا ہوگا۔اپنی غلطیوں کا ذمہ دار دوسروں کو قرار نہ دیں۔

(50)حد سے زیادہ غصہ کرنا وحشت دلاتا ہے اور بے موقع نرمی ہیبت مٹاتی ہے۔ نرمی اور سختی حسبِ موقع کرنا مناسب ہے، سرجن ضرورت پڑنے پر کٹ بھی لگاتا ہے پھر اس پر مرہم بھی لگاتا ہے۔

(51)مال زندگی گزرانے کے لئے ہوتا ہے نہ کہ زندگی مال کمانے کے لئے۔

(52)ہر ایک کی اپنی پسند ہوتی ہے اس لئے کسی کی جائز پسند کو چیلنج نہیں کرنا چاہئے۔

(53)پرندہ فضا میں اُڑتا ہے اور مچھلی پانی میں تیرتی ہے۔ اپنی صلاحیتوں کے بارے میں غلط اندازے نہ لگائیں۔

(54)سب کو سب کچھ نہیں مل سکتا، اس لئے تقسیمِ الٰہی پر راضی رہئے۔

(55)ہاتھی چھلانگ نہیں لگا سکتا، لِکُلِ فَنٍّ رِجَالٌ(یعنی ہر کام کے لئے ماہر افراد ہوتے ہیں)۔

(56)آج بچھڑنے والے کل دوبارہ اکٹھے ہوسکتے ہیں، اس لئے جب بھی کسی سے جدا ہوں سلیقے اور طریقے سے الگ ہوں۔

(57)مصیبت میں راحت کی تلاش بھی اِک مصیبت ہے۔

(58)موڈ موسموں کی طرح بدلتا رہتا ہے، اہم فیصلے موڈ نہیں اصول کے مطابق کرنے چاہئیں۔

(59)فوری کمنٹس شرمندگی کا سبب بھی بن جاتے ہیں، اس لئے معاملے کا صحیح رُخ سامنے آنے کا انتظار کیجئے اس کے بعد شرعاً اجازت ملنے کے بعد کمنٹس پاس کیجئے۔

(60)دنیا کا نظام تقسیم کاری پر چل رہا ہے، اس لئے ہر کام خود کرنے کی ضد نہیں کرنی چاہئے بلکہ وہ کام کسی کو سکھا کر اپنا معاون بنالیجئے، اگرچہ اس میں کچھ وقت صرف ہوجائے گا لیکن آئندہ کے لئے آپ کو سہولت ہوجائے گی،اِنْ شآءَ اللہ۔

(61)دوسرے کو نکما ثابت کرکے خود کو اہل ثابت کرنے کی کوشش کرنا دانشمندی نہیں۔کسی کی ٹانگیں کاٹ دینے سے بونوں کا قد بڑا نہیں ہوجاتا۔

(62) عافیت کی قدر اسی کو ہوتی ہے جو کسی مصیبت میں گرفتار ہوا ہو۔

(63)سونا کان کھودنے پر نکلتا ہے،ہر قیمتی چیز کو پانے کے لئے اس کی قیمت رقم یا محنت مشقت کی صورت میں ادا کرنا پڑتی ہے۔

محترم قارئین!مضمون ”حقیقتیں“ کی تین قسطوں میں 63حقیقتوں کا بیان ہوا، اسی طرح کی بہت سی حقیقتیں آپ کے علم یا تجربے میں بھی ہوں گی، ان کی روشنی میں اپنی زندگی کو بہتر سے بہترین کرنے کی کوشش کیجئے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

*(چیف ایڈیٹر ماہنامہ فیضان مدینہ، رکن مجلس المدینۃ العلمیہ کراچی)



([1])معجم اوسط،5/161، حدیث: 6922

([2])فیض القدیر، 4 / 456، 705

([3])احیاء العلوم، 1/84

([4])گلستان سعدی،ص118

([5])گلستانِ سعدی،ص197۔


Share