سمندر اور قطرہ

شرحِ حديثِ رسول

سمندر اور قطرہ (Sea and Drop)

*مولانا محمد آصف عطّاری مدنی

اس دنیا کی آخرت کے مقابلے میں کیا حیثیت ہے اس بارے میں رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:وَاللهِ مَا الدُّنْیَا فِی الْاٰخِرَۃِ اِلَّا مِثْلُ مَا یَجْعَلُ اَحَدُکُمْ اِصْبَعَہٗ ہٰذِہٖ فِیْ الْیَمِّ فَلْیَنْظُرْ بِمَ تَرْجِعُ یعنی اللہ کی قسم!دنیا کی آخرت میں مثال ایسی ہے جیسے تم میں سے کوئی اپنی انگلی کو سمندر میں ڈالتا ہے تو اسے دیکھنا چاہے کہ وہ کیا لے کر آتی ہے۔([1])

شرحِ حدیث حضرت علّامہ مُلا علی قاری رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں: یعنی دنیاکی نعمتوں اور مُدّت کی مثال آخرت کی نعمتوں اورعرصے کے سامنے ایسی ہے کہ تم میں سے کوئی اپنی انگلی سمندر کے کثیر پانی میں ڈبوکر نکالے تو اسے غور کرناچاہئے کہ اس کی انگلی پر کتنے پانی کی تَری (wet) لگ کر آئی؟(تَری دنیا اور سمندر آخرت کی مثال ہے۔)یہ مثال بھی سمجھانے کے لئے دی گئی ہے ورنہ فانی (یعنی ختم ہوجانے والی دنیا) کی باقی(یعنی آخرت) کے سامنے وہ حیثیت بھی نہیں جو انگلی کی تَری کو سمندر سے ہے۔([2])

آخرت دنیا سے زیادہ اہم ہےاس فرمانِ مصطفےٰ سے ہمیں یہ سیکھنے کو ملا کہ دنیاوی خواہشات اور محنت و مشقت سے عزت و دولت کمانا جلد ختم ہوجانے والی چیزیں ہیں،اس لئے کسی کو دنیاوی کشادگی (Prosperity) پر خوش اور غافل نہیں ہونا چاہئے اور نہ ہی دنیاوی تنگی (Poverty) پر شکوہ وشکایت کرنی چاہئے بلکہ کشادگی اور تنگی دونوں حالتوں میں وہ یہ کہے ”لَا عَيْشَ اِلَّا عَيْشُ الْآخِرَةِ“ یعنی اصل زندگی تو آخرت کی زندگی ہے۔ رسول ِکریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے یہی بات ایک مرتبہ غزوۂ احزاب میں اور دوسری مرتبہ حجۃُ الوداع میں صحابۂ کرام رضی اللہُ عنہم کے سامنے ارشادفرمائی۔([3]) حَیاۃُ الدُّنیا اور چیز ہے، حَیاۃ فِی الدُّنْیا اور حَیَاۃ لِلدُّنْیا کچھ اور یعنی دنیا کی زندگی، دنیا میں زندگی، دنیا کے لئے زندگی، جو زندگی دنیا میں ہو مگر آخرت کے لئے ہو دنیا کے لئے نہ ہو، وہ مبارک ہے۔مولانا (رُوم) فرماتے ہیں:

آب در کَشتی ہلاکِ کَشتی اَسْت                         آب اندر زیرِ کَشتی پُشْتی اَسْت

کشتی دریا میں رہے تو نجات ہے اور اگر دریا کشتی میں آجائے تو ہلاک ہے۔([4])

قراٰنِ مجید فرقانِ حمید میں بھی آخرت کی زندگی کو دنیاوی زندگی سے بہتر قرار دیا گیا ہے،چنانچہ سورۂ اَنعام میں ہے:

(وَمَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا لَعِبٌ وَّلَهْوٌؕ-وَلَلدَّارُ الْاٰخِرَةُ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَؕ-اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ(۳۲))

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور دنیا کی زندگی صرف کھیل کود ہے اور بیشک آخرت والا گھر ڈرنے والوں کے لئے بہتر ہے تو کیا تم سمجھتے نہیں؟([5])

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

دنیاوی زندگی سے کیا مُراد ہے؟ حکیمُ الامت حضرت الحاج مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:دنیا کی زندگی وہ ہے جو نفس کی خواہشات میں گزر جائے اور جو زندگی آخرت کے لئے توشہ جمع کرنے میں صَرف ہو، وہ دنیا میں زندگی تو ہے مگر دنیا کی زندگی نہیں لہٰذا انبیاء و صالحین کی زندگی دنیا کی نہیں بلکہ دین کی ہے۔ غرضیکہ غافل اور عاقل کی زندگیوں میں بڑا فرق ہے۔([6])

چُستی اور پُھرتی کا سبب نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سامنے سے ایک شخص گزرا۔ صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوَان نے اس کی چُستی دیکھ کر عرض کی: یَارسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! کاش اس کی یہ چُستی اللہ کی راہ میں ہوتی۔ تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اگر یہ اپنے چھوٹے بچّوں کی ضَرورت پوری کرنے کے لئے نکلا ہے تو بھی یہ اللہ کی راہ میں ہے اور اگر اپنے بوڑھے والدین کی خدمت کے لئے نکلا ہے تو بھی اللہ کی راہ میں ہے اور اگر اپنے آپ کو (ناجائز کاموں سے)بچانے کے لئے نکلا ہے تو بھی اللہ کی راہ میں ہے اور اگر یہ رِیاکاری اور تَفاخُر (بڑائی ظاہرکرنے) کے لئے نکلا ہے تو پھر یہ شیطان کی راہ میں ہے۔([7])

دنیا کے لئے کتنی اسٹرگل اور آخرت کیلئے کتنی؟ ہمارے کثیر دینی بُزرگوں نے ہمیں اس حوالے سے ایک ہی طرح کی راہنمائی دی ہے، یہاں صرف ایک شخصیت کی بات نقل کروں گاجنہوں نے صرف اڑھائی سال کی مدت میں اسلامی سلطنت کو عروج پر پہنچا دیاکہ آج دنیا ان کی پرفارمنس کو تسلیم کرتی ہے، چنانچہ تابعی بزرگ عُمر ِثانی حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: اِعْمَلْ لِلدُّنْیَا عَلٰی قَدْرِ مَقَامِکَ فِیْھَا وَاعْمَلْ لِلْاٰخِرَۃِ عَلٰی قَدْرِ مَقَامِکَ فِیْھَا یعنی دنیا کے لئے اُتنا کرو جتنا عرصہ دنیا میں رہنا ہے اور آخِرت کے لئے اُتنا کرو جتنا وہاں رہنا ہے۔([8])

عمل کرکے بھی دکھایا ان شخصیات نے اپنے کہے پر عمل کرکے بھی دکھایا، چنانچہ حضرت سیِّدُنا حماد بن سلمہ رحمۃُ اللہِ علیہ بازار جاتے اور ایک کپڑے پر دو دانق (یعنی درہم کا چھٹا حصہ) نفع کما لیتے تو واپس لوٹ آتے تھے اور اتنا سا کمانے کے بعد اگر آپ کو دو دینار کی پیشکش بھی کی جاتی تواس پر کان نہ دھرتے۔([9])

ہماری کاوشیں کس کے لئے؟اب تک کی گفتگو سے کم از کم دو باتیں معلوم ہوئیں: پہلی یہ کہ دنیا کی آخرت کے مقابلے میں کوئی حیثیت یا اہمیت نہیں اور دوسری یہ کہ ہمیں جتنادنیا میں رہنا ہے اتنی دنیا کے لئے اور جتنا آخرت میں رہنا ہے اتنی آخرت کے لئے کوشش کرنی چاہئے، لیکن افسوس ہماری اکثریت دونوں باتوں میں اُلٹی سمت چلتی ہے، آخرت کے مقابلے میں دنیا کو اہمیت دیتی ہے اور اتنی لگن سے دنیا کماتی ہے گویا کبھی مرنا ہی نہیں! ایسے لوگ اپنا آرام، گھریلو زندگی کی خوشیاں قربان کرکے 16، 18 گھنٹے کام کرتے ہیں، گھر کے ضروری اخراجات پورے ہونے کے باوجود صرف آسائشوں اور سہولتوں کی خاطر دولت جمع کرنے کے لئے دو دو جگہ نوکری کرتے ہیں، ایک وقت میں کئی کئی کاروبار کرتے ہیں، کمائی کے نئے ذرائع کی تلاش میں گھر بار سے دور دوسرے شہر میں رہنا شروع کردیتے ہیں بلکہ دوسرے ملکوں میں پہنچ جاتے ہیں اور وہاں اجنبی ماحول میں رہتے ہیں، کچھ تو ملک سے باہر جانے کیلئے غیرقانونی اور جان لیوا راستے اختیار کرتے ہیں۔ دنیا کا مال کمانے کیلئے نئی نئی مہارتیں پیدا کرتے ہیں، مختلف کورسز کرتے ہیں، محض تجربہ حاصل کرنے کے لئے مفت نوکری کرتے ہیں چاہے وہ تجربہ زندگی میں کبھی کام نہ آئے، دنیا جہان کی اِنفارمیشن رکھتے ہیں لیکن انہی لوگوں کی دینی معلومات دیکھی جائیں تو نہ ہونے کےبرابر، انہیں مفت میں علمِ دین سکھایا جائے تو بھی ان کے پاس وقت نہیں ہوتا، دین پر عمل دیکھا جائے تو فرض نماز تک نہیں پڑھتے، واجبات پورے نہیں کرتے، جس جس علم کا سیکھنا فرض ہے اسے نہیں سیکھتے، آس پاس کے رشتے داروں اور پڑوسیوں وغیرہ کے حقوق ادا نہیں کرتے۔ ایسے لوگوں کو سوچنا چاہئے کہ جس دنیا کو حاصل کرنے کیلئے انہوں نے غیر معمولی کوششیں کیں وہ پھر بھی ان کی خواہش کے مطابق نہ مل سکی تو آخرت کی کامیابی جس کے لئے انہوں نے کچھ محنت ہی نہیں کی، وہ کس طرح انہیں مل جائے گی؟ اس لئے سمجھداری اسی میں ہے کہ جتنا دنیا میں رہنا ہے اتنی دنیا کے لئے اور جتنا آخرت میں رہنا ہے اتنی آخرت کے لئے کوشش کی جائے۔یاد رکھئے! پُرانی عادت چھوڑنا مشکل ضرور ہے ناممکن نہیں، نئی آئے گی تو پرانی جائے گی۔ اپنا مائنڈ سیٹ تبدیل کرنے کے لئے فرینڈ سرکل بدلئے، اپنی خواہشات کو کنٹرول کیجئے، غیرضروری خبروں کا پیچھا کرنا چھوڑ دیجئے، دینی مطالعہ کیجئے، اسلامی کورسز میں شریک ہوجائیے۔ اپنے آپ میں آٹو میٹک تبدیلی چاہتے ہیں تو دعوتِ اسلامی کے دینی ماحول سے وابستہ ہوجائیے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* (چیف ایڈیٹر ماہنامہ فیضان مدینہ، رکن مجلس المدینۃ العلمیہ کراچی)



([1])مسلم، ص1171، حدیث:7197

([2])مرقاۃ المفاتیح، 9/6، تحت الحدیث:5156

([3])مرقاۃ المفاتیح، 9/6، تحت الحدیث:5156

([4])مراٰۃ المناجیح، 7/3

([5])پ7،الانعام:32

([6])نور العرفان، الانعام، تحت الآیۃ: 32، ص208

([7])معجم کبیر، 19/129، حدیث: 282- التنویر شرح الجامع الصغیر، 4/241، تحت الحدیث: 2654

([8])سیرۃ و مناقب عمر بن عبدالعزیز المعروف سیرت ابن جوزی، ص123

([9])حلیۃ الاولیاء، 6/270۔


Share