Book Name:Na-Mehramon say mel jol ka wabaal

                                                                   (مسند احمد، مسند عائشه  رضی الله عنھا، ١٠/۱۲، حدیث:۲۵۷۱۸)

شرحِ حدِیث

حکیم ُالاُمَّت مفتی احمد یار خان  رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ   مِراٰۃُ المناجیح جلد 2 صَفْحہ 527 پر اس حدیثِ پاک کی شرح میں فرماتے ہیں: یعنی جب تک میرے حُجرے میں رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  اور حضرت ابوبکر صِدِّیق(رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ)مدفون رہے تب تک تو میں سَر کھولے یا ڈھکے ہر طرح حُجرے شریف میں چلی جاتی تھی کیونکہ نہ خاوند سے حِجاب ہوتا ہے نہ والِد سے، (مگر) جب سے حضرتِ عُمَر (رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ)میرے حُجرے میں دَفْن ہو گئے تب سے میں بغیر چادر اَوڑھے اور پردہ کا پورا اِہتِمام کئے بغیر حُجرے شریف میں نہ گئی کہ حضرتِ عُمَر (رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ)سے شَرْم و حَیا کرتی ہوں۔

میٹھے میٹھے اسلامی  بھائیو! اس حدیث سے بَہُت مسائل مَعلوم ہو ئے: ایک یہ کہ مَیّت کا بعدِ وفات بھی اِحْتِرام(کرنا ) چاہئے۔ فقہا فرماتے ہیں کہ مَیّت کا ایسا ہی اِحْتِرام کرے جیسا کہ اس کی زِنْدَگی میں کرتا تھا۔ دُوسرے یہ کہ بزرگوں کی قُبور کا بھی اِحْتِرام اوران سے بھی شَرْم و حَیا چاہئے۔ تیسرے یہ کہ مَیّت(مُردہ) قبر کے اندر سے باہَر والوں کو دیکھتا اور انہیں جانتا پہچانتا ہے۔ دیکھو! حضرتِ عُمَر (رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ)سے عائشہ صِدِّیقہ(رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا)ان کی وفات کے بعد شرم و حَیا فرما رہی ہیں اور اگر آپ باہَر کی کوئی چیز نہ دیکھتے تو اس حَیا فرمانے کے کیا معنیٰ۔ چوتھے یہ کہ قبر کی مٹّی، تختے وغیرہ تو مَیّت کی آنکھوں کے لیے حِجاب(رکاوٹ) نہیں بن سکتے مگر زائر (یعنی زِیارَت کرنے والا) کے جسم کا لباس ان کے لیے آڑ ہے، لہٰذا مَیّت کو زائر(زیارت کرنے والا) برہنہ نہیں دکھائی دیتا ورنہ حضرتِ عائشہ صِدِّیقہ (رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا) کا چادر اَوڑھ کر وہاں جانے کے کیا معنیٰ تھے، یہ قانونِ قدرت ہے۔ ( مراٰۃ المناجیح، قبروں کی زیارت، تیسری فصل، ۲/۵۲۷)