Madinay Ki Barkatain

Book Name:Madinay Ki Barkatain

الْاِيمَانَ لَيَاْرِزُ اِلَى الْمَدِينَةِ ایمان مدینے کی طرف سمٹتا ہے۔یعنی جب عاشقانِ رسول دنیا میں رہتے ہیں ، دیگر شہروں میں ، اپنے اپنے علاقوں میں رہتے ہیں ، وہاں ان کو دنیا داروں سے بھی واسطہ پڑتا ہے ، شیطان سے بھی واسطہ پڑتا ہے ، نفس بھی گھائل کرتا ہے ، اب ان کا ایمان کمزور پڑنا شروع ہو جاتا ہے ، پھر وہ مدینۂ مُنَوَّرَہ  پہنچتے ہیں تو مدینۂ مُنَوَّرَہ  کی آب و ہوا ایسی نرالی ، ایسی ایمان افروز ہے کہ اس کی برکت سے ایمان کو دوبارہ سے تازگی مل جاتی ہے۔

مدینے کی کھجور سے ایمان کی تازگی

عظیم عاشقِ رسول ، مُحَدِّثِ اعظم پاکستان حضرت مولانا سردار احمد رحمۃُ اللہ عَلَیْہ مدینۂ مُنَوَّرَہ  سے بہت محبت کیا کرتے تھے ، آپ  رحمۃُ اللہ عَلَیْہ کی محفل میں اکثر مدینۂ مُنَوَّرَہ  کا تذکرہ ہوتا رہتا تھا ، اگر کوئی زا ئِرِمدینہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا تو اس سے   مدینۂ مُنَوَّرَہ کے حالات پوچھتے ، مدینۂ مُنَوَّرَہ  کے رہائشی عاشقانِ رسول کی خیریت دریافت کرتے اور اگر کوئی تبرک پیش کرتا تو بڑی خوشی سے قبول فرماتے۔ ایک دفعہ ایک حاجی صاحب مدینۂ مُنَوَّرَہ  سے واپس آئے ، وہ کھجوریں لے کر حاضر ہوئے اور حضور مُحَدِّثِ اعظم پاکستان رحمۃُ اللہ عَلَیْہ  کی خدمت میں پیش کیں ، اس وقت دورۂ حدیث جاری تھا( یعنی کلاس لگی ہوئی تھی) اور مُحَدِّثِ اعظم پاکستان رحمۃُ اللہ عَلَیْہ  حدیث شریف پڑھا رہے تھے ، آپ نے مدینۂ مُنَوَّرَہ  کی کھجوریں تمام طلبامیں تقسیم فرمائیں اور ایک کھجور اپنی داڑھوں کے نیچے دبا لی ، پھر فرمایا : خرمائے مدینہ (یعنی کھجورِمدینہ) جب تک گھل گھل کر اندر جاتی رہے گی ، ایمان تازہ ہوتا رہے گا۔([1])

ہوائیں آرہی ہیں کوچۂ پُرنورِ جاناں کی      کِھلی جاتی ہیں کلیاں ، تازگی دِل کو میسر ہے


 

 



[1]... حیاتِ محدث  اعظم پاکستان ، صفحہ : 155۔