Book Name:Madinay Ki Barkatain
روٹی آپ نے خواب میں ہی کھا لی ، جب جاگے تو آدھی روٹی ابھی ہاتھ ہی میں تھی([1]) * مشہور مفسرِ قرآن ، حکیم الاُمَّت ، مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہ عَلَیْہ جب مدینۂ مُنَوَّرہ حاضِر ہوئے تو وہاں آپ کو ایک قلم (Pen) بہت اچھا لگا ، پسند آیا ، خریدنا چاہا مگر اتنی رقم موجود نہیں تھی ، چنانچہ بارگاہِ رسالت میں عرض کیا ، عرضی پیش کر کے رہائش پر واپس تشریف لائے ، کچھ دَیْر کے بعد آپ کے ایک دوست آئے ، وہی قلم اُن کے ہاتھ میں ہے ، آ کر مفتی صاحِب رحمۃُ اللہ عَلَیْہ کو پیش کیا اور کہا : یہ میں آپ کے لئے تحفہ (Gift) لایا ہوں۔ مفتی صاحِب فرماتے ہیں : میں نے سرکارِ عالی وقار ، مکی مدنی تاجدار صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم کی عطا سمجھ کر رکھ لیا اور نِیّت کی کہ اس قلم سے قرآنِ پاک کی تفسیر لکھوں گا۔([2])
عاشقِ مدینہ ، شیخِ طریقت ، امیر ِ اہلِ سنّت دَامَت بَرَکَاتُہمُ الْعَالِیَہ کا بھی ایک بہت خوبصُورت واقعہ ہے ، آپ کی شہرِ مدینہ میں حاضری کی پہلی رات تھی ، مسجد شریف میں چندافراد نمازِ تہجد کےلئے موجود تھے ، صبحِ صادق کاسُہاناوقت تھا ، امیرِ اہلسنت ذوق وشوق کے عالَم میں نور برساتے سبز سبز گنبد کی زیارت سے لُطف اُٹھاتے قَدَمَین شریفین کی جانب بابِ جبریل سے سبزسبز گنبد کےسائے میں جاتے ، پھر وہاں سےاُلٹے قدم چل کر دوسری جانب آجاتے ، عجیب کیف و سُرور بھری دل کی کیفیت ہوگی۔ اِسی کیف و مستی کے عالَم میں تھے کہ ایک امتحان درپیش ہو گیا۔ ہواکچھ یوں کہ عاشقِ مدینہ نے تاجدارِ مدینہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم