Book Name:Ya ALLAH! Mein Hazir Hon

ہوں گے، ضروری سامان پیک کیا جا رہا ہو گا، کچھ ہی دنوں میں قافلے سوئے حرم روانہ ہونا شروع ہو جائیں گے، کاش ہم بے کسوں ، گنہگاروں کو بھی یہ سَعادت ملے، ہم بھی حج  کریں، صَفا مَروہ  کی سَعی کریں، میدانِ عرفات میں قیام ہو، منٰی میں قربانی کریں، حَجرِ اَسْود کو جھوم جھوم کر بوسے دینے کی توفیق نصیب ہو جائے اور کاش! صد کروڑ کاش! جھوم جھوم کر  کعبہ شریف کے گرد پروانہ وار پھیرے لگانے (یعنی طواف کرنے) کی سعادت مل جائے۔

حاجی اور محبّتِ اِلٰہی کا عملی اظہار

پیارے اسلامی بھائیو! ذرا غور کرنے کی بات ہے!یہ کیسا خوبصورت منظر  ہے کہ اللہ پاک کا بندہ ،جسے اللہ پاک نے تخلیق فرمایا، جسے اللہ پاک نے سانسیں عطا کیں، زندگی عطا کی، طاقت عطا کی،وہ بندہ اِحْرام باندھ کر اللہ پاک کے حکم پر عمل کرتےہوئے ، مکہ میں پہنچتا ہے،لَبَّيْكَ اَللّٰھُمَّ لَبَّيْكَ (میں حاضِر ہوں، یا اللہ! میں حاضِر ہوں) کی صدائیں لگاتا ہے اور عملی طور  پر یہ اقرار کر رہا ہوتا ہے کہ یا اللہ! میں تیرا ہی بندہ ہوں، تُو ہی میرا رَبّ ہے،  اے اللہ پاک!میں تیری پاک بارگاہ میں حاضر ہوں،اے رَبِّ رحمٰن و رحیم! تو نے مجھے کعبہ کے گرد طَواف  کرنے کا حکم دیا میں طَواف کرنے حاضر ہوں، یا رَبِّ کریم! تو نے مجھے میدانِ عرفات میں قیام کا حکم دیا ، میں اپنا گھر بار چھوڑ کر، دُور دراز کا سَفر کر کے، گرمی اور سخت دھوپ کی پروا کئے بغیر میدانِ عرفات میں حاضِر ہو گیا ہوں۔

الغرض یہ کتنا خوبصورت اور عشق بھرا انداز ہے، اس میں محبتِ اِلٰہی کی کیسی جھلک پائی جاتی ہے کہ بندہ اپنے رَبّ کی بارگاہ میں عَرْض کرتا ہے: لَبَّيْكَ اَللّٰھُمَّ لَبَّيْكَ (یعنی میں حاضر ہوں ، اے اللہ پاک! میں حاضر ہوں)۔