Book Name:Hairat Ka Medan
ہے، ان پریشانیوں سے نکلنے کی بہت کوشش کی جاتی ہے، بندہ ہاتھ پیر مارتا ہے، ان سے نکل ہی نہیں پاتا، کسی نے کہا تھا:
اِکْ اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اُترا تو میں نے دیکھا
وضاحت: یعنی میں ایک پریشانی سے نکلا، ابھی سُکھ کا سانس لینے ہی والا تھا کہ سامنے ایک اور پریشانی کھڑی تھی۔
ایسا کیوں ہوتا ہے؟ ہم اس حیرت کے میدان (یعنی پریشانیوں) سے کیوں نکل نہیں پاتے؟ سوچنا چاہئے؛ کہیں یہ ہماری نافرمانیوں اور گُنَاہوں کی سزا تو نہیں ہے *فجر سوتے ہوئے گُزر جاتی ہے *ظُہر، عصر اور مَغْرِب کام کاج کی مَصْروفیات میں گزار دیتے ہیں *عشا کے وقت تھکاوٹ بہت ہوتی ہے، لہٰذا سَو جاتے ہیں *درودِ پاک پڑھنا، ذِکْر اللہ کرنا، وِرْد وَظیفے پڑھنا، قرآنِ کریم کی تِلاوت کرنا، ایسے نیک کاموں کی طرف کبھی توجہ ہی نہیں جاتی *سُودی کاروبار کئے جاتے ہیں *دوسروں کو تکلیفیں دی جاتی ہیں اور نا جانے کیسے کیسے گُنَاہ ہیں جو مُعَاشرے میں ہو رہے ہیں۔
ہم میں سے ہر ایک اپنے مُتَعَلِّق غَور کر لے کہ میں اگر پریشانیوں میں پھنسا ہوا ہوں، کام اَٹکے ہوئے ہیں، ایک کے بعد ایک پریشانی آتی ہی جا رہی ہے، میں اس حیرت کے میدان سے نکل ہی نہیں پا رہا ہوں، کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ میرے گُنَاہوں کی سزا ہے؟
پیارے اسلامی بھائیو! ہمیں توبہ کی طرف آنا چاہئے! گُنَاہ چھوڑ کر اللہ پاک کی فرمانبرداری اِختیار کرنی چاہئے۔ صُوفیائے کرام فرماتے ہیں: یہ دُنیا گویا کہ میدانِ تِیَہ ہے۔