Book Name:Imam e Azam Ki Mubarak Aadatein
کریں اور اس کے تقاضوں کو پُورا کریں، ان پر فرشتے نازِل ہوتے ہیں، انہیں خوشخبریاں سُناتے ہیں۔ عُلَمائے کرام نے اس آیت سے اَوْلیائے کرام کے الہام کو ثابِت کیا ہے۔([1])
خیال رہے! وحی جو انبیائے کرام علیہم السَّلَام پر آتی ہے اور الہام جو اولیائے کرام پر کیا جاتا ہے، ان دونوں میں کئی طرح فرق ہے (1): وحی میں شرعی احکام بھی بیان ہوتے ہیں جبکہ الہام جو اَوْلیاء کو ہوتے ہیں، ان میں شرعی احکام نہیں ہوتے، صِرْف خوشخبریاں ہوتی ہیں یا پِھر انہیں کوئی غیب کی بات بتائی جاتی ہے یا بعض دفعہ اَوْلیائے کرام کو کوئی قرآنی آیت یا حدیث شریف وغیرہ سمجھنے میں دُشْواری ہو رہی ہو تو انہیں الہام کے ذریعے سمجھا دی جاتی ہے (2): نبی عَلَیْہِ السَّلَام وحی لانے والے فرشتے کو دیکھتے ہیں جبکہ وَلِیُّ اللہ اِلہام کرنے والے فرشتے کو دیکھتے نہیں صِرْف غیبی آواز سُنتے ہیں یا عِلْم کی بات ان کے دِل میں ڈال دی جاتی ہے (3): وحی شرعاً دلیل ہوتی ہے جبکہ الہام اُس درجے کی دلیل نہیں ہے۔([2]) مثلاً صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ عنہم کو قرآنِ پاک میں جنّتی فرمایا گیا، لہٰذا صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ عنہم یقینی جنتی ہیں جبکہ ہم نے ابھی روایت سُنی، اِمامِ اعظم رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ کی تقلید کرنے والوں کیلئے بذریعہ الہام بخشش کی بشارت دی گئی، اس سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ جو بھی حنفی ہے وہ یقینی جنّتی ہے، ہاں! اس الہام کی بدولت اللہ پاک کی رحمت سے پختہ اُمِّید رکھی جا سکتی ہے کہ اِنْ شَآءَ اللہُ الْکَرِیْم! جو اِمامِ اعظم رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ کا دامنِ کرم تھامے، رَبِّ کائنات اپنے کرم سے اسے بخش دے گا۔