Imam e Azam Ki Mubarak Aadatein

Book Name:Imam e Azam Ki Mubarak Aadatein

کا بیٹا تھا، اس نے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ عنہم کی زِیارت بھی کی ہے تو کیا یہ بھی اس آیتِ کریمہ میں بیان کئے گئے فضائِل کا حق دار ہو گا؟ اس لئے وضاحت کر دُوں کہ ہر وہ شخص جسے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ عنہم کی صحبتیں نصیب ہوئی ہیں، وہ بخشا ہوا ہے، ایسا نہیں ہے بلکہ اس آیتِ کریمہ میں اللہ پاک نے 2 شرطیں لگائی ہیں، ارشاد فرمایا:

وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍۙ- (پارہ:11،اَلْتَّوْبَہ:100)

ترجمہ کنزُ العِرْفان:اور دوسرے وہ جو بھلائی کے ساتھ ان کی پیروی کرنے والے ہیں

آیتِ کریمہ کے ان الفاظ کی وضاحت کرتے ہوئے مفسرینِ کرام فرماتے ہیں: صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ عنہم کی صِرْف پیروی کرنا نجات کیلئے کافی نہیں ہے، صِرْف پیروی تو مُنَافِق بھی کرتے تھے،بلکہ اُن کی اِتِّباع احسان کے ساتھ چاہئے، احسان کے معنیٰ ہیں: *اچھا کہنا *اچھا جاننا *اچھا ماننا۔ یعنی *بندہ مُنہ سے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ عنہم کی تعریف کرے * دِل سے انہیں اچھا جانے، مانے *پِھر اُن کی اِتِّباع کرے۔ احسان نے حضراتِ صحابہ رَضِیَ اللہُ عنہم میں اور عام مسلمانوں میں فرق کر دیا کہ اُن حضرات سے رَبِّ کریم مطلقاً راضی ہے کہ یعنی وہ سابِق اور اَوَّل ہیں۔ رہے ہم لوگ تو ہم سے رَبّ 2 شرطوں سے راضِی ہو گا: (1): ایک یہ کہ انہیں اپنا متبوع یعنی پیشوا مانیں اور (2):دوسرے یہ کہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ عنہم کو حق پر جانیں، انہیں نیک، متقی پرہیز گار مانیں، ان میں عیب نہ نکالیں۔ سُبْحٰنَ اللہ! اس سے معلوم ہوا تاقیامت وہی مسلمان حق پر ہیں جو حضرات صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ عنہم کے پیرو کار اور ان کے ثناخواں، اُن کا ذِکْرِ خیر کرنے والے ہیں، صِرْف وہی جنتی ہیں، رَبِّ کریم اُن سے راضی ہے۔

اللہ! اللہ! جب اللہ پاک حضرات صحابۂ کرام کے غُلاموں سے راضی ہے تو خُود ان