Book Name:Makkah Sharif Ke Fazail
اب میں لوگوں کو یقین دِلانے کے لیے اِس بات پر قَسَم کھا لُوں گا، اس سے سامنے والوں کو یقین آجائے گا کہ چونکہ قَسَم کھا لی ہے، لہٰذا اِس کی بات سچّی ہے (2):دوسری بات یہ کہ ہم ہمیشہ اپنے سے بلند رُتبہ کی قَسَم ہی کھاتے ہیں، مثلاً: ہم کہتے ہیں: اللہ پاک کی قَسَم ۔ اللہ پاک یقیناً بہت ہی بلند رُتبہ ہے *ہم مَخْلوق ہیں، اللہ پاک خالِق ہے *ہم مَمْلُوک (غلام) ہیں، اللہ پاک مالِک ہے *ہم رِزْق کے مُحْتَاج ہیں، اللہ پاک رِزْق عطا فرمانے والا ہے۔ غرض؛ ہم جب بھی قَسَم کھائیں گے، اپنے سے بلند رُتبہ ہی کی قَسَم کھائیں گے۔
لیکن اللہ پاک جب قَسَم ارشاد فرماتا ہے، اس میں یہ دونوں باتیں نہیں ہوتیں، اللہ پاک نے جو بات اِرشاد فرما دی، وہ ویسے ہی پختہ ہے، اُسے مزید قَسَم کے ذریعے پختہ کرنے کی حاجَت ہی نہیں ہے، بھلا اللہ پاک سے بڑھ کر سچّی بات کس کی ہو سکتی ہے؟ قرآنِ کریم میں ہے:
وَ مَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللّٰهِ قِیْلًا(۱۲۲) (پارہ:5، النساء:122)
تَرجَمۂ کَنزالْعِرفَان:اور اللہ سے زیادہ کس کی بات سچی ہے؟
جب سب سے سچّا اللہ پاک ہی ہے، اُس نے جو فرما دیا، وہی حق ہے، وہی سچ ہے، لہٰذا اللہ پاک جب قَسَم اِرشاد فرماتا ہے تو اُس میں بات کو پختہ کرنا، مقصُود نہیں ہوتا بلکہ اللہ پاک کا قَسَم ارشاد فرمانا، یہ بتانے کے لیے ہوتا ہے کہ اے لوگو...!! یہ چیز جس کی قَسَم اللہ پاک نے ارشاد فرمائی ہے، یہ انتہائی بلند رُتبہ اور اُونچی شان والی ہے۔ لہٰذا اَللہ پاک نے جب فرمایا:
لَاۤ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِۙ(۱) (پارہ:30،البلد:1)
تَرجَمۂ کَنزالْعِرفَان:مجھے اِس شہر کی قَسَم!
یعنی مجھے مکّہ پاک کی قسم...!!