Shehr e Mohabbat

Book Name:Shehr e Mohabbat

مدینۃُ المنوَّرہ کے حالات پوچھتے، مدینۂ پاک کے رِہائشی عاشقانِ رسول کی خیریت معلوم فرماتے اور اگر کوئی تَبَرُّک پیش کرتا تو بڑی خوشی سے قَبول فرماتے۔ ایک مرتبہ ایک حاجی صاحِب نے مدینۂ طیِّبہ کی کھجوریں پیش کیں، اُس وَقْت دروۂ حدیث (یعنی عالِم کورس کے آخری درجے کا سبق) جاری تھا،خُرمائے مدینہ(یعنی مدینے کی کھجوریں ) حاضِرین طَلَبہ میں تقسیم فرمائیں اور ایک کھجوراپنی داڑھوں میں دبا کر فرمانے لگے: خُرمائے مدینہ(یعنی کھجورِ مدینہ) اپنے منہ میں رکھ لی ہے، جب تک گُھل کر اندر جاتی رہے گی، ایمان تازہ ہوتا رہے گا۔([1])

مدینے میں اپنے بال وناخن دفن فرمائے

حُضُور مُحَدِّثِ اعظم مولانا سردار احمد صاحِب  رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ  کا ایک اندازِ محبّت یہ بھی ہے کہ جب آپ کو مدینۂ پاک حاضِری کی سَعَادت نصیب ہوئی تو وہاں سے واپسی کے وقت آپ نے اپنے کچھ بال اور ناخُن مدینہ شریف میں دفن کر دئیے اور بارگاہِ رسالت میں عرض کیا: یَارَسُولَ اللہ  صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم ! مدینۂ پاک میں مرنا تو میرے اختیار میں نہیں البتہ اپنے جسم کے کچھ حصّے دَفْن کر کے جا رہا ہوں، ہم غریبوں کے لئے یِہی غنیمت ہے۔([2])

مفتی نقی علی خان رحمۃ اللہ علیہ کا ذِکْرِ خیر

پیارے اسلامی بھائیو! اعلیٰ حضرت کے والِدِ ماجِد مولانا مفتی نقی علی خان  رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ  بھی بہت بڑے عاشِقِ رسول تھے، الحمد للہ! عاشِقِ مدینہ بھی تھے، ذِیْقعدہ کی 29 یا 30 تاریخ کو آپ کا عرس ہوتا ہے، کوشش کر کے اپنے *گھروں میں*دُکانوں پر*آفسز میں


 

 



[1]... حیات ِمحدِث اعظمِ پاکستان ، صفحہ:155۔

[2]... حیات ِمحدِث اعظمِ پاکستان ، صفحہ:155۔