سُتون  رونے لگا

ایک واقعہ ایک معجزہ

سُتون (Pillar)رونے لگا

* مولانا ارشد اسلم عطّاری مدنی

ماہنامہ جون 2021

آج صُہیب اور خُبیب دادا جان کے ساتھ پارک آئے ہوئے تھے ، چلتے چلتے دادا جان ایک جگہ پر رکے تو خبیب نے پوچھا : دادا جان ایک بات تو بتائیے! کیا پھول ، پودے اور درخت لگانے کا کوئی فائدہ ہوتا ہے؟ داداجان نے کہا : ان کے فائدے تو اتنے ہیں کہ کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا۔ اور ہمارے لئے تو اس میں ڈبل فائدہ ہے۔ خبیب نے فوراً پوچھا : کیسا ڈبل فائدہ ؟ داداجان نے کہا : اس کام میں ہمارے پیارے نبی  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی بات ماننا ہے۔ اگرہم یہ سوچ کر پودے لگائىں گے تو اِن شآءَ اللہ ثواب ملےگا کیونکہ آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے فرمایا : جو مسلمان دَرخت لگائے ىا فَصل بوئے پھر اس مىں سے کوئی پرندہ ىا اِنسان یا جانور کھائے تو وہ اس کى طرف سے صَدَقہ ماناجائے گا ۔ (بخاری ، 2 / 85 ، حدیث : 2320)

صہیب نے کہا : داداجان!درخت لگانے کے کچھ اور فائدے بتائیے۔ داداجان نے کہا : بچّو!یہ توآپ کو معلوم ہے کہ ہَوا زندگی کے لئے بہت ضروری ہے ، اس کے بغیر کوئی بھی زندہ نہیں رہ سکتا : (1) درخت اور پودے گندی ہوالے کر صاف ستھری اورتازہ ہوا دیتے ہیں (2)زیادہ درخت اور پودوں سے مَوسم ٹھنڈا اور خوشگوار رہتاہے (3)یہ گرمی سے بچاتے ہیں۔

داداجان نے دونوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا : اچھا یہ بتائیے کہ کاغذ کس سے بنتاہے؟ دونوں بھائی ایک دوسرے کی شکل دیکھنے لگے ، صہیب نے کہا : ہمیں کیا معلوم ، داداجان آپ ہی بتائیے۔ داداجان نے مسکراتے ہوئے کہا : کاغذ بھی درختوں سے ہی بنتے ہیں۔ صہیب نے کہا : داداجان! واقعی! ان کے بہت سارے فائدے ہیں۔

صہیب نے کہا : داداجان!ایک دن آپ نے کہاتھاکہ میں درخت والا واقعہ سناؤں گا۔ داداجان نے تھوڑا سا سوچ کر کہا : ہاں بھئی!کہاتو تھا۔ جیسے ہی داداجان کو یاد آیا صہیب نے جلدی سے کہا : بس تو پھرابھی ابھی واقعہ سنائیے۔ داداجان نے کہا : اچھااچھا! پہلے کہیں بیٹھ جاتے ہیں پھرواقعہ بھی سنا دیں گے۔

داداجان نےبچّوں سے پوچھا : منبر کسے کہتے ہیں؟دونوں نے انکار کرتے ہوئے کہا : ہم نے توپہلی مرتبہ یہ نام سنا ہے۔ داداجان نے کہا : جمعے کی نماز سے پہلے امام صاحب جس پر کھڑے ہوکر خطبہ پڑھتے ہیں اس کو منبر کہتے ہیں۔ دونوں بھائیوں نے کہا : اسے تو ہم روز دیکھتے ہیں کیونکہ ہمارا مدرسہ مسجد میں ہی توہے ۔

اچّھا چلو !اب واقعہ سنو :

شروع شروع میں جب مسجدِ نبوی بنائی گئی تو اس میں سُتُون (یعنی پلرز) کھجور کے تَنوں کے بنائے گئے تھے۔ اس وقت مسجدِ نبوی میں  منبر بھی نہیں تھا۔ ہمارے پیارے نبی  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم انہی سُتونوں میں سے ایک سُتون کے ساتھ   ٹیک لگاکر خطبہ دیا کرتے تھے۔  کچھ دنوں بعد وہاں ایک منبررکھ دیا گیا۔ جب آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  مسجد میں تشریف لائے اس بار اس سُتون سے ٹیک نہ لگائی بلکہ منبر پر  بیٹھ گئے۔ اچانک کسی کی  بچّے جیسی رونے کی آواز آنے لگی ، مسجد میں موجودلوگوں نے بھی رونے کی آواز سُنی۔

داداجان نے دونوں بچّوں کی طرف دیکھا اور پوچھا : تمہیں پتا ہے وہ رونے کی آواز کہاں سے آ رہی تھی؟ دونوں نے گردن ہلاتے ہوئے انکار کیا۔ دادا جان نے کہا : وہ رونے کی آواز اسی سُتون میں سےآرہی تھی جس کے ساتھ پیارے نبی  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  پہلے ٹیک لگایا کرتے تھے۔ اچانک خبیب حیرانی سے بولا : کیا واقعی! دادا جان نے زور دیتے ہوئے کہا : جی بیٹا ! کھجور کے اسی سُتون سے ، اب سنو تو سہی پھر کیا ہوا :

ہمارے پیارے نبی  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  منبر سے اترے ، اس  کے پاس گئے ، اسے چُپ کروانے کے لئے اپنا پیارا ہاتھ اس پر رکھا اور پھر  سینے سے لگالیا۔ روتے روتے اس کی  ہچکیاں بندھ گئی  تھیں۔ تھوڑی دیر بعد اس میں سے آواز آنا بند ہوگئی۔ حضور  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے  فرمایا : اگر میں اسے چپ نہ کرواتاتو یہ قیامت تک روتا رہتا۔

اور ہاں بچّو! اس کے رونے کی وجہ سے ہی اس سُتون کو “ سُتونِ حنّانہ “ بھی کہا جاتاہے۔

آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے اس سُتون سے بات کی اور  فرمایا : اگرتوچاہے تومیں تجھے  باغ میں پہنچادوں تاکہ تُو پہلے کی طرح ہَرا بَھرا درخت ہو جائے اور ہمیشہ پھلتا پُھولتا رہے یا تجھے جنّت  میں لگادوں۔

داداجان نے تھوڑا سا وقفہ ہی کیا تھا کہ صہیب فوراً بولا : داداجان پھر اس  نے کیا بننا چاہا؟ اس ستون نے جنّت میں لگنے کی خواہش کی۔ (بخاری ، 2 / 496 ، حدیث : 3584 ، ابن ماجہ ، 2 / 178 ، حدیث : 1415 ، بتغیر قلیل ، سنن دارمی ، 1 / 178 ، حدیث : 32)

دادا جان نے کہا : یادرکھوبچّو!ہمارے پیارے نبی  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا صرف یہی ایک معجزہ نہیں تھا بلکہ ایسے کئی معجزات ہیں جن میں غیر جاندار چیزوں سے حضور  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے باتیں کی ہیں۔

چلو اب ہم گھر چلتے ہیں ، کافی دیر ہوچکی ہے اور آپ کو بہت ساری باتیں بھی پتا چل گئیں۔ دونوں بھائی خوشی خوشی دادا جان کے ساتھ پارک کے دروازے کی طرف بڑھنے لگے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃُ المدینہ ، ذمہ دار  شعبہ بچوں کی دنیا (کڈز لٹریچر) المدینۃ العلمیہ ، کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code