آخری نبی کا پیارا معجزہ
توشہ دان کبھی خالی نہ ہوا
*مولانا سید عمران اختر عطّاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ نومبر 2024
حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے کئی معجزات ایسےبھی تھے کہ آپ کے وصالِ ظاہری کے سالوں بعد تک بھی آپ کے پیارے صحابہ کو ان کے فائدے اور برکتیں نصیب ہوتی رہیں، انہی میں سے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ کے توشہ دان([i]) سے تعلق رکھنے والا معجزہ بھی ہے جس کی تفصیل یہ ہے:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضور نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں کچھ کھجوریں لے کر حاضر ہوا اور عرض کی:یارسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! ان میں اللہ پاک سے برکت کی دُعا فرما دیجئے۔ حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے انہیں اکٹھا کیا اور میرے لئے ان میں دعائے برکت فرمائی پھر مجھ سے فرمایا: لو یہ اپنے توشہ دان میں رکھ لو، اس میں سے جب بھی لینا چاہو تو اپنا ہاتھ ڈال کر لے لینا لیکن اِسے جھاڑنا مت۔ (حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہفرماتے ہیں) میں نے ان کھجوروں میں سے اتنے اتنے (یعنی کئی) وَسق([ii]) کھجوریں اللہ پاک کی راہ میں خرچ کیں پھر ہم خود بھی اس میں سے کھاتے اور دوسروں کو کھلایا کرتے۔ وہ توشہ دان میری کمر سے کبھی جُدا نہ ہوتا تھا، یہاں تک کہ جس دن حضرت عثمانِ غنی رضی اللہُ عنہ شہید ہوئے تو وہ مجھ سے کہیں گر گیا۔([iii])
اس بابرکت توشہ دان کا کھوجانا حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ کے لئے اتنا بڑا غم تھا کہ ان دنوں آپ یہ شعر کہا کرتے:
لِلنَّاسِ هَمٌّ وَلِي هَمَّانِ بَيْنَهُمُ
هَمُّ الْجَرَابِ وَهَمُّ الشَّيْخِ عُثْمَانَا
لوگوں کے لئے ایک غم ہے اور ان کے درمیان میرے لئے دوغم ہیں، توشہ دان گُم ہونے کا غم اور حضرت عثمان کی جدائی کا غم۔([iv])
حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے وصال کے بعد حضرت عثمانِ غنی رضی اللہُ عنہ کی شہادت تقریباً پچیس سال بعد ہوئی جبکہ حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے دُعائے برکت اپنی حیاتِ مبارکہ میں دی تھی لہٰذا 25سال یعنی 300ماہ سے زیادہ عرصہ تک اس توشہ دان سے کھجوروں کا ختم نہ ہونا، مسلسل حاصل ہونا یقیناً حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا بہت زبردست معجزہ تھا وہ یوں کہ اس توشہ دان کا ہمیشہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ کی کمر سے بندھا رہنا ظاہر کرتا ہے صرف ایک آدھ کلو کھجوریں ہوں گی کیونکہ کمر پر ہر وقت باندھے رکھنے والا سامان عام طور پر اتنے ہی وزن کا ہوتا ہے مگر اس کے باوجود آپ رضی اللہُ عنہ نے خود کھانے اور دوسروں کو کھلانے کے علاوہ کئی مَن راہِ خدا میں بھی خیرات کئے۔
ہمارے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اس معجزے سے چند چیزیں سمجھ آتی ہیں:
*برکت یہ ہے کہ چیز تھوڑی ہو مگر وہ اور اس کا فائدہ ہمیشہ یا پھر دیر تک باقی رہے۔
*حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنی بارگاہ میں آنے والے کی درخواست قبول فرماتے اور آرزو پوری کیا کرتے تھے۔
*سچی عقیدت والوں کو چاہئے کہ چیزوں کی ظاہری مقدار کو دیکھنے کے بجائے اللہ والوں کی دعاؤں اور برکتوں پر یقین رکھیں۔
*اللہ پاک کا قرب رکھنے والوں کی زبان سے نکلنے والی دُعا بابرکت اور مستجاب (قبول) ہوتی ہے۔
*اگر کوئی اپنی مرادیں نبیوں یا ولیوں سے جاکر مانگے اور یہ عقیدہ رکھے کہ یہ حضرات بھی اللہ سے مانگ کر مجھے دیں گے تو ایسا کرنا شرک و گناہ نہیں بلکہ جائز و فائدہ مند ہے، فائدہ مند اس لئے کہ یہ اللہ پاک کے خاص دوست ہوتے ہیں، اللہ پاک کی بارگاہ سے ان کا ہمارے لئے مانگنا، ہمارے اپنے لئے مانگنےسے زیادہ جلدی قبول ہوتا ہے۔
*جب دوسروں کو فائدہ پہنچانا اپنے بس میں ہو تو ضرور فائدہ پہنچانا چاہئے۔
*جسے اللہ پاک نوازے اسے چاہئے کہ اللہ پاک کے عطا کئے ہوئے میں سے اس کی راہ میں ضرور خرچ کرے، نیک کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے۔ راہِ خدا میں دینے سے درحقیقت مال بڑھتا ہے۔
*بابرکت چیز کی مقدار کے بارے میں سوچنے، اندازہ لگانے یا اسے ناپنے تولنے سے گریز کرنا چاہئے کیونکہ یہ سب چیزیں توکل و بھروسے کے خلاف ہیں، اس لئے یہ سب کرنے کے بجائے اللہ پاک پر توکل و بھروسا رکھتے ہوئے اس بابرکت چیزسے خوشی خوشی فائدہ اٹھاتے رہنا چاہئے۔
Comments