دائیں طرف

پیارے اسلامی بھائیو!ہمارے دین ِاسلام میں دائیں ہاتھ اور دائیں طرف کی بڑی اہمیّت بیان کی گئی ہے، آئیے اس حوالے سے کچھ دلچسپ معلومات مُلاحظہ کیجئے:

قراٰن اور دائیں طرف کا بیان

(1) (قیامت کےدن) جب اللّٰہ پاک کی بارگاہ میں پیشی کے وقت اعمال نامے تقسیم ہوں گے تو جسے اس کا نامۂ اعمال دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا تو وہ یہ سمجھ لے گا کہ وہ نَجات پانے والوں میں سے ہے۔ (پ29،الحاقۃ:19، صراط الجنان،ج10،ص324) (2)حضرت موسیٰ علیہ الصَّلوٰۃ والسَّلام کو مَدْیَن سے آتے ہوئے طُور پہاڑ کی جانب سے ایک درخت سے جو آواز آئی تھی وہ بھی آپ علیہ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام کے دائیں طرف تھی، ارشادِ ربِّ کریم ہے: (وَ نَادَیْنٰهُ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ الْاَیْمَنِتَرجَمۂ کنز الایمان: اور اسے ہم نے طور کی دا ہنی جانب سے ندا فرمائی۔(پ16،مریم:52)(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)(3)قراٰنِ پاک میں جہاں آپ علیہ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام کے ہاتھ میں عصا کا ذکر ہے تو وہاں اس عَصاکے آپ کے دائیں ہاتھ میں ہونے کا تذکرہ ہے،  پاک کا فرمان ہے: ( وَ مَا تِلْكَ بِیَمِیْنِكَ یٰمُوْسٰى(۱۷)تَرجَمۂ کنز الایمان: اور یہ تیرے داہنے ہاتھ میں کیا ہےاے موسیٰ۔ (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)ایک اور مقام پر ارشادِ خداوندی ہے: ( وَ اَلْقِ مَا فِیْ یَمِیْنِكَ تَلْقَفْ مَا صَنَعُوْاؕ-تَرجَمۂ کنز الایمان:اور ڈال تو دے جو تیرے دہنے ہاتھ میں ہے وہ ان کی بناوٹوں کو نگل جائے گا۔ (پ16، طہٰ: 69 ،17)(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)(4)حضرت ابراہیم علیہ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام نے بتوں کو دائیں ہاتھ سے توڑا تھا، ارشادِ ربِّ کریم ہے:(فَرَاغَ عَلَیْهِمْ ضَرْبًۢا بِالْیَمِیْنِ(۹۳)) تَرجَمۂ کنزالایمان: تو لوگوں کی نظر بچاکر انہیں دہنے ہاتھ سے مارنے لگا ۔ (پ23،الصّٰٓفّٰت:93)(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)(5)سال میں ایک مرتبہ دسویں محرم کو اَصْحابِ کَہْف کی کَرْوَٹیں بدل دی جاتی ہیں پہلے دائیں جانب پھر بائیں جانب۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:( وَ نُقَلِّبُهُمْ ذَاتَ الْیَمِیْنِ وَ ذَاتَ الشِّمَالِ ﳓتَرجَمۂ کنز الایمان: اور ہم ان کی د ا ہنی بائیں کروٹیں بدلتے ہیں۔(خزائن العرفان، پ15، الکہف، تحت الآیۃ: 18، خازن، الکہف، تحت الآیۃ: 18،ج 3،ص205،204)(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

احادیثِ رسولِ اَنام اور دائیں طرف کا بیان

دائیں ہاتھ اور سیدھی طرف کی اہمیّت کے بیان پر دو فرامینِ مصطفےٰ صلَّی  علیہ واٰلہٖ وسلَّم ملاحظہ کیجئے: (1)تم میں سے ہر ایک دائیں ہاتھ سے کھائے اور سِیدھے ہاتھ سے پئے اور سِیدھے ہاتھ سے لے اور سیدھے ہاتھ سے دے کیونکہ شیطان اُلٹے ہاتھ سے کھاتا اور اُلٹے ہاتھ سے پیتا اُلٹے ہاتھ سے دیتا اور اُلٹے ہاتھ سے لیتا ہے۔(ابنِ ماجہ،ج4،ص12،حدیث:3266) مُحَدِّث اعظم پاکستان حضرت مولانا محمد سردار احمد قادری چشتی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں، لینے اور دینے میں دائیں ہاتھ کو استِعمال کرو، یہ عادت ایسی پختہ ہو جائے کہ کل قِیامت کو جب نامہ ٔاعمال پیش ہو تو اِسی عادت کے مُوافِق دایاں (یعنی سیدھا) ہاتھ آگے بڑھ جائے تب تو کام بن جائے گا۔(حیاتِ محدثِ اعظم،ص374) (4)یقینًا اﷲ پاک اور اس کے فرشتے صفوں کے داہنے حصّوں پر درود بھیجتے ہیں۔ (ابوداؤد،ج1،ص268،حدیث:676) پہلی صف والوں پر عمومی رحمت ہوتی ہے اورداہنی صف والوں پر خُصوصی رَحْمت، پھر صَفِ اوّل کے داہنے والوں پر اور زیادہ خاص رحمت نازل ہوتی ہے کیونکہ پہلی صف کا داہنا حصّہ باقی مقامات سے افضل ہے۔(مراٰۃ المناجیح،ج 1،ص471،  ج 2 ،ص124) دائیں ہاتھ اور دائیں جانب کی اہمیّت پر نہ صرف مکی مدنی آقا صلَّی  علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے فرامین دلالت کرتے ہیں بلکہ آپ صلَّی  علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا مبارک عمل بھی اس کی اہمیت کو واضح کرتا ہے۔

خیرُ الاَنام   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور دائیں طرف کا اہتمام

(1)آقائے دو جہاں صلَّی  علیہ واٰلہٖ وسلَّم جُوتا پہننے،کنگھی کرنے اور طہارت (وضو وغسل) کرنے یہاں تک کہ ہر کام میں دائیں طرف سے ابتدا کرنے کو پسند فرماتے۔ ( بخاری،ج 1،ص81، حدیث:168) (2)جب بھی کوئی شے لیتے تو دائیں ہاتھ سے لیتے اور جب کسی کو کچھ عطا فرماتے تو دائیں ہاتھ سے عطا فرماتے۔( نسائی، ص810، حدیث: 5069)(3)ایک بار آپ صلَّی  علیہ واٰلہٖ وسلَّم لوگوں کے درمیان تشریف لائے تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دونوں مبارک ہاتھوں میں کتابیں تھیں، ایک میں جنّتیوں، ان کے باپ دادوں اور ان کے قبیلوں کے نام تھے جبکہ دوسری میں جہنمیوں، ان کے باپ دادوں اور ان کے قبیلوں کے نام تھے۔ جس کتاب میں جنتیوں کے نام تھے وہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دائیں ہاتھ مبارک میں تھی۔ (ترمذی،ج 4،ص55، حدیث:2148ملتقطاً)

اَصْحابِ رسول کی پسند:جب پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پیچھے نماز پڑھنے کے لئے صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان  کھڑے ہوتے تو وہ آپ صلَّی  علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دائیں طرف کھڑےہونے کو پسند کرتے، چنانچہ حضرت بَراء بن عازِب رضی  عنہما سے روایت ہے کہ جب ہم نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پیچھے نماز پڑھتے تو ہمیں آپ کے دائیں طرف کھڑا ہونا زیادہ محبوب ہوتا تھا تاکہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سلام کے بعد چہرہ ٔانور ہماری طرف پھیریں۔ (مسلم، ص280، حدیث:709)

متفرّق معلومات:٭جنّت میں جب حضرت سیّدنا آدم علیہ السَّلام کو نبیِّ آخر الزمان صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے ملنے کا شوق پیدا ہوا تو ان کے سوال پر  پاک نے نُورِ محمدی کو ان کے دائیں ہاتھ کی شہادت والی انگلی میں چمکایا۔ (روح البیان، الاحزاب، تحت الآیۃ: 56،ج 7،ص229) ٭لوحِ محفوظ عرش کی دائیں جانب ہے۔ (تفسیرقرطبی،ج 10،ص210) ٭جنت میدانِ محشر کے دائیں جانب ہوگی۔ (تفسیر عزیزی،ج3،ص413) ٭ایک قول کے مطابق نامۂ اعمال  دائیں ہاتھ میں لینے والے تمام اُمّتوں کے مؤمنین حوضِ کوثر سے پئیں گے۔ (الزواجرعن اقتراف الکبائر،ج 2،ص483) ٭حُضُور صلَّی اللہ علیہ وسلَّم  (اپنے عمامہ مبارک کا) شِمْلہ پُشت کے پیچھے لٹکاتے تھے کبھی ”داہنی“ جانب سینہ پر بھی ہوتا تھا، دونوں طریقے سنّت ہیں۔(مراٰۃ المناجیح،ج6،ص121) ٭قیامت کے دن جن کے نامۂ اعمال ان کے ”داہنے“ ہاتھوں میں دیئے جائیں گے یہ ان کیلئے خوش بختی کی نشانی ہوگی اور وہ جنّت میں داخل ہوں گے(صراط الجنان،ج10،ص324، 691 ماخوذاً) ٭ہر وہ کام جو عزّت اور عظمت رکھتا ہے اُسے دائیں  طرف سے شروع کرنا مستحب ہے جیسے مسجِد میں داخِل ہونا، لباس پہننا، مِسواک کرنا، سُرمہ لگانا، ناخن تَراشنا، مُونچھیں کاٹنا، ، وُضُو،غسل کرنا وغیرہ اور جس کام میں یہ (یعنی بُزُرگی والی ) بات نہیں جیسے مسجد سے باہَر آنے، بیتُ الخلا میں داخِل ہونے، ناک صاف کرنے، نیز شلوار اور کپڑے اُتارتے وقت بائیں (یعنی اُلٹی طرف) سے ابتِدا کرنا مستحب ہے۔(عمدۃ القاری ،ج2،ص476)

کریم ہمیں ہر شان والے کام کو سیدھے ہاتھ اور سیدھی جانب سے شروع کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭…محمد نواز عطاری مدنی

٭…ماہنامہ فیضان مدینہ کراچی


Share