دیہات والوں کے سوالات اور رسولُ اللہ کے جوابات(قسط:07)

علم کی چابی

دیہات والوں کے سوالات اور رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے جوابات(قسط :7)

*مولانا محمد عدنان چشتی عطّاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ جون 2024ء

مکہ شریف اور مدینہ پاک کے اردگرد چھوٹی چھوٹی بستیاں، قبیلے،گاؤں اور دیہات آباد تھے،ان میں سے کچھ قریب اور کچھ دور دراز سفر پر واقع تھے۔ان میں رہنے والے لوگ ہمارے پیارے نبی،مکی مدنی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہوتے اور اپنی مشکلات، مسائل اور الجھنیں سُلجھانے کے لئے آپ سے سوالات کرتے،ان میں سے 22سوالات اور ان کے جوابات پچھلی 5 قسطوں میں بیان کئے جاچکے، یہاں مزید  4سوالات اور پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے جوابات ذکر کئے جارہے ہیں:

علم کیسے اُٹھایا جائے گا؟حضرت اَبواُمامہ باہِلی رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ جب حجۃ الوَداع کے موقع پر نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے خطبہ دیا تو آپ ایک گندمی رنگ کے اونٹ پر سوار تھے اس دن آپ نے اپنے پیچھے حضرت فضل بن عباس رضی اللہُ عنہما کو بٹھایا ہوا تھا۔ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: يَااَيُّهَا النَّاسُ خُذُوا مِنَ الْعِلْمِ قَبْلَ اَنْ يُّقْبَضَ الْعِلْمُ، وَقَبْلَ اَنْ يُّرْفَعَ الْعِلْمُ یعنی اے لوگو! علم حاصل کرو اس سے پہلے کہ علم اُچک لیا جائے اور قبل اس کے کہ علم اُٹھا لیا جائے اور اللہ پاک نے جب یہ آیت

(یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَسْــٴَـلُوْا عَنْ اَشْیَآءَ اِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْۚ-وَ اِنْ تَسْــٴَـلُوْاعَنْهَا حِیْنَ یُنَزَّلُ الْقُرْاٰنُ تُبْدَ لَكُمْؕ-عَفَا اللّٰهُ عَنْهَاؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ(۱۰۱))

ترجَمۂ کنزالایمان: اے ایمان والوایسی باتیں نہ پوچھو جو تم پر ظاہر کی جائیں تو تمہیں بری لگیں اور اگر انہیں اس وقت پوچھو گے کہ قرآن اتر رہا ہے تو تم پر ظاہر کردی جائیں گی اللہ انہیں معاف فرما چکا ہے اور اللہ بخشنے والا حلم والا ہے۔ ([1])

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

نازل فرما دی تو ہم رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے زیادہ سوالات کرنے کو اچھا نہیں سمجھتے تھے اور احتیاط کرتے تھے۔ ایک دن ہم ایک دیہاتی کے پاس آئے ہم نے اُسے ایک چادر دی، اُس نے اُس کا عمامہ باندھ لیا۔میں نے دیکھا کہ اُس چادر کا ایک کنارہ اس کی سیدھی اَبرو کے پاس سے نکل رہا تھا۔

ہم نے اس سے کہا: نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے کوئی سوال پوچھو، چنانچہ اس نے کہا:يَا نَبِيَّ اللَّه! كَيْفَ يُرْفَعُ الْعِلْمُ مِنَّا وَبَيْنَ اَظْهُرِنَا الْمَصَاحِفُ وَقَدْ تَعَلَّمْنَا مَا فِيهَا، وَعَلَّمْنَا نِسَاءَنَا وَذَرَارِيَّنَا وَخَدَمَنَا یعنی اے اللہ کے نبی! جب ہمارے درمیان قراٰنِ پاک موجود ہے تو ہمارے درمیان سے علم کیسے اٹھا لیا جائے گا جبکہ ہم نے خود بھی اس کے احکام سیکھ لئے ہیں اور اپنی بیویوں، بچّوں اور خادموں کو بھی سکھا دئیے ہیں؟

نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنا سر مبارک اٹھایا تو چہرہ مبارک پر جلال کی وجہ سے سرخی کے آثار تھے،آپ نے فرمایا: تیری ماں تجھے روئے، ان یہودیوں اور عیسائیوں کے پاس بھی تو آسمانی کتابوں کے مصاحف ہیں لیکن اب وہ کسی ایک حرف سے بھی نہیں چمٹے ہوئے جو ان کے انبیائے کرام لے کر آئے تھے یاد رکھو! علم اٹھ جانے سے مراد یہ ہے کہ حاملینِ علم اٹھ جائیں گے یہ بات آپ نے تین مرتبہ ارشاد فرمائی۔([2])

علم یوں اُٹھے گا:قیامت کے قریب علم کیسے اُٹھ جائے گا اس بات کی وضاحت خود رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اس حدیث میں موجود ہے:حضرت عبدا بن عَمرو رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے رسول ا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:ا پاک علم کھینچ کر نہ اُٹھائے گا کہ بندوں سے کھینچ لے بلکہ عُلما کی وفات سےعلم اٹھائے گا حتی کہ جب کوئی عالم نہ رہے گا تولوگ جاہلوں کو پیشوا بنالیں گے جن سے مسائل پوچھے جائیں گے وہ بغیر علم فتویٰ دیں گے، (خود) گمراہ ہوں گے اور (دوسروں کو) گمراہ کریں گے۔([3])

حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ اس کی شرح میں لکھتے ہیں: یہ حدیث کا تتمّہ ہے جس میں فرمایا گیا کہ قریبِ قیامت علم اُٹھ جائیگا،جہالت پھیل جائے گی،یعنی اس کے اٹھنے کا ذریعہ نہ ہوگا کہ لوگ پڑھا ہوا بھول جائیں گے،بلکہ علماء وفات پاتے رہیں گےاور بعد میں دوسرے علماء پیدا نہ ہوں گے جیساکہ اب ہورہا ہے کہ ایک خلقت انگریزی کے پیچھے پھر رہی ہے، دینِ رسول اللہ یتیم ہو کر رہ گیا۔علم سے علمِ دین مراد ہے۔ پیشوا سے مرادقاضی،مفتی،امام اور شیخ ہیں جن کے ذمّے دینی کام ہوتے ہیں۔مقصد یہ ہے کہ دینی عہدے جاہل سنبھال لیں گے اور اپنی جہالت کا اظہار ناپسندکریں گے۔مسئلہ پوچھنے پر یہ نہ کہیں گے کہ ہمیں خبر نہیں بلکہ بغیر علم گھڑکر غلط مسئلے بتائیں گے اس کا انجام ظاہرہے۔بےعلم طبیب مریض کی جان لیتا ہے اور جاہل مفتی اور خطیب ایمان بربادکرتے ہیں۔([4])

مہینے کی کون سی تاریخ کے روزے رکھیں؟ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہُ عنہ کی خدمت میں کھانا پیش کیا گیا۔آپ نے ایک آدمی کو کھانے کی دعوت کی۔اُس نے کہا: إِنِّي صَائِمٌ یعنی میں روزہ دار ہوں۔ فرمایا: تم کون سے روزے رکھ رہے ہو؟ اگر کمی بیشی کا ڈر نہ ہوتا تو میں تمہیں نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی وہ حدیث سُناتا کہ جب آپ کی خدمت میں دیہات کا رہنے والا آدمی ایک خرگوش لے کر حاضر ہوا، تم ایسا کرو کہ حضرت عمار بن یاسر رضی اللہُ عنہ کو بلا کر لاؤ۔ جب حضرت عمار رضی اللہُ عنہ تشریف لائے تو حضرت عمر رضی اللہُ عنہ نے ان سے پوچھا : کیا آپ اس دن نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں موجود تھےجب ایک اعرابی خرگوش لےکر حاضرِ خدمت ہوا تھا۔حضرت عمار رضی اللہُ عنہ نے کہا: جی ہاں! میں نے اس پر خون لگا ہوا دیکھا تھا، نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: كُلُوهَا ”اسے کھاؤ“، وہ کہنے لگا کہ میرا روزہ ہے، آپ نے فرمایا: وَاَيُّ الصِّيَامِ تَصُومُ؟تم نے کون سا روزہ رکھا ہوا ہے؟ اُس نے کہا کہ میں ہر مہینے کے شروع اور آخر میں روزہ رکھتا ہوں۔رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اِنْ كُنْتَ صَائِمًا، فَصُمِ الثَّلَاثَ عَشْرَةَ، وَالْاَرْبَعَ عَشْرَةَ، وَالْخَمْسَ عَشْرَة اگر تم روزہ رکھنا ہی چاہتے ہو تو نفلی روزے کے لئے مہینے کی تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخ کا روزہ رکھو۔([5])

مال جمع کرنے والوں سے کون لوگ مراد ہیں؟ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے غلام خالد بن اسلم کہتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہُ عنہما کے ساتھ جا رہا تھا کہ اچانک ایک دیہات کا رہنے والا آدمی ملا، اُس نے آیت

(وَ الَّذِیْنَ یَكْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَ الْفِضَّةَ وَ لَا یُنْفِقُوْنَهَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِۙ-)

ترجَمۂ کنز الایمان:اور وہ کہ جوڑ کر رکھتے ہیں سونا اور چاندی اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے،

 پڑھ کرسوال کیاکہ اس سے کون لوگ مراد ہیں؟ توحضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہُ عنہما نے فرمایا: جس نے اسے خزانہ بنا کر رکھا، اور اس کی زکوٰۃ ادا نہ کی، تو اس کے لئے ہلاکت ہے، یہ آیت زکوٰۃ کا حکم اترنے سے پہلے کی ہے، پھر جب زکوٰۃ کا حکم اترا تو اللہ پاک نے اسے مالوں کی پاکی کا ذریعہ بنا دیا، پھر فرمایا: اگر میرے پاس اُحد پہاڑ کے برابر سونا ہوتو مجھے کوئی پروا نہیں ہےكہ میں اس کی تعداد جان لوں گا اور اس کی زکوٰۃ ادا کروں گا اور اللہ کے حکم کے مطابق اس کو استعمال کرتا رہوں گا۔([6])(جاری ہے)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* ذمہ دار شعبہ فیضان حدیث، المدینۃ العلمیہ کراچی



([1])پ7،المائدۃ:101

([2])مسند احمد،36/621، حدیث:22290

([3])بخاری،1/54،حدیث:100

([4])مراٰۃ المناجیح،1/192

([5])مسند احمد،1/337،حدیث:210

([6])ابن ماجہ،1/371، حدیث:1787


Share