تحمل مزاجی

اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے والا انسان اخلاقِ حَسَنہ کے ایسے گُلستاں میں رہتا ہے جس میں عَفْو و دَرْگزر، عَدْل و انصاف، شَفْقت و نَرْمی، عِفّت و پاکیزگی، ایثار و ہمدردی، جُود و سَخا اور تَحَمُّل مزاجی و بُرْدباری کے پھول کھلتے ہیں، ہر پھول کی اپنی الگ خوشبو ہے لیکن تحمل مزاجی ایسا پھول ہے جس کی مہک پورے معاشرے کو لالہ زار بنا سکتی ہے۔

تحمل مزاجی کے معنی:تحمل بناہے حِلْم سے، اس کامعنیٰ ہے ناگواری اور غصّہ کے اظہار پر قُدْرت کے باوجود نَرمی سے کام لینا اور پُرسکون اور مطمئن رہنا۔(کتاب التعریفات،ص66، ماخوذاً)

تحمل مزاجی کو قراٰنِ پاک میں مُتَّقین کے اوصاف میں بیان کیا گیا ہے چنانچہ اللہ پاک کا فرمان ہے: ( وَ  الْكٰظِمِیْنَ  الْغَیْظَ ) ترجمۂ کنزُالایمان:اور غصہ پینے والے (پ4،اٰلِ عمرٰن:134)(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) اس آیتِ مبارکہ میں متقین کے چار اوصاف بیان کئے گئے جن میں سے ایک غصہ پی جانا بھی ہے۔(صراط الجنان،ج 2،ص54)جبکہ احادیثِ طیّبہ میں بھی اس کے کئی فضائل آئے ہیں۔

تحمل مزاجی پر 2فرامینِ مصطفےٰ:(1)پانچ چیزیں رسولوں علیہمُ السَّلام کی سنّت ہیں، ان میں سے ایک حِلْم یعنی بُردبارہوناہے۔(موسوعۃ ابن ابی الدنیا،ج 2،ص24، حدیث:6) (2)بےشک مسلمان مَرد بُردباری کی وجہ سے روزہ دار اور شب بیدار کا دَرَجہ پالیتا ہے۔(موسوعۃ ابن ابی الدنیا،ج 2،ص27، حدیث: 8 ملتقطاً)

پیکرِ حِلْم و تحمل:سرکارِ دوعالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تحمل مِزاجی اور عَفْو و درگزر کے پیکر تھے، ایسے حالات و واقعات کہ جہاں بڑے سے بڑے تحمل مزاج کا بھی ظرف جواب دے جائے ، شفیق و کریم آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے وہاں بھی تحمل مزاجی کا ثُبوت دیا اور کسی قسم کی انتقامی کاروائی نہ کی۔ سفرِ طائف اور اہلِ مکّہ کے مَظالم پر صَبْر و تحمل کے واقعات اس بات کا منہ بولتا ثُبوت ہیں۔ ہمیں بھی اپنے کریم آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے نقشِ قدم پر چلنا چاہئے۔

ہمارا معاشرہ اور عدمِ برداشت: آج کہیں بھائی بھائی کا دُشمن ہے تو کہیں خاندانوں میں خانہ جنگی کا ماحول ہے،کہیں گھر میدانِ جنگ کا منظر پیش کر رہے ہیں تو کہیں عزیز دوستوں میں ناچاقیاں ہیں، اَلْغَرَض!نفرتوں میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے اور محبتوں میں روز بروز کمی آتی جا رہی ہے، بعض اوقات معمولی سی بات پر لوگ باہَم دست و گریباں نظر آتے ہیں،ان تمام چیزوں کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ہمارے اندر برداشت کا مادہ خَتْم ہوتا جا رہا ہے۔ لڑائی جھگڑے والی باتوں پر اگر ایک فریق بھی تحمل مزاجی کا مظاہرہ کرے تو فتنے کے جراثیم اپنی موت آپ مَرجائیں ۔ یاد رکھئے!تحمل مزاجی ایسی بہترین ڈھال ہے جو دُشمن کو بھی موم بناسکتی ہے لہٰذا ہمیں چاہئے کہ تحمل مِزاجی اور بُردباری کو فروغ دیں تاکہ معاشرہ اُلْفت و محبت کی خوشبو سے سَرشار ہوجائے۔

حکایت اور درس: حضرت سیِّدُنا امام زَیْنُ الْعَابِدین رضی اللہ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ ایک شَخْص نے آپ کو بُرا بھلا کہا تو آپ رضی اللہ عنہ نے اپنی سِیاہ رنگ کی چادر اُتار کر اُسے دے دی اور اُسے ایک ہزار دِرْہم دینے کا بھی حکم دیا۔(احیاءالعلوم ،ج3،ص544) عُلَمافرماتے ہیں کہ اس طرح حضرت سیِّدُنا امام زَیْنُ الْعابِدین رضی اللہ عنہ نے پانچ اچّھی خَصْلتوں کو جمع کیا:(1)بُردْباری (تحمل مزاجی) (2)تکلیف نہ دینا (3)اس شخص کو اللہ پاک سے دُور کرنے والی بات سے بچانا (4)تَوْبہ اور ندامت پر اُکسانا (5)اور بُرائی کے بدلے بھلائی کرنا۔اس طرح آپ رضی اللہ عنہ نے معمولی دُنیا کے بدلے یہ تمام چیزیں خرید لیں۔(احیاءالعلوم ،ج3،ص544)

اللہ کریم ہمیں اسلام کی روشن تعلیمات پرعمل کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭…محمد حامد سراج عطاری مدنی

٭…ذمّہ دار شعبہ بیانات دعوتِ اسلامی المدینۃ العلمیہ


Share