العلم نور
لکھنے کے لئے عنوان کی تلاش
*مولانا راشد علی عطاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ نومبر 2024
تحریر وتصنیف خدمتِ دین کاایک اہم اور مضبوط ترین ذریعہ ہے۔ تدریس و تقریر کے مقابلے میں بہت کم افراد اس شعبہ سے وابستہ ہوتے ہیں، کیونکہ اس میں کئی طرح کی پیچیدگیاں ہوتی ہیں۔ تحریر و تصنیف کا شوق رکھنے والوں کی ایک تعداد تو پہلے ہی مرحلے یعنی انتخابِ عنوان پر ہی دل برداشتہ ہوجاتی ہے اور قدم آگے نہیں بڑھا پاتی۔ انتخابِ عنوان بھی ایک مکمل فن ہے، آئیے! اس حوالے سے کچھ اہم نکات ملاحظہ کرتے ہیں:
یادرکھئے! انتخابِ عنوان کے لئے جس قدر زیادہ مواقع اور آپشنز ہوں گے اسی قدر اپنی صلاحیات، میلانِ طبع اور دلچسپی کی رعایت کا موقع ملے گا۔ کثیر عنوانات سے آگاہی ذہنی استعداد اور فکر کو بھی جِلا بخشتی ہے۔ ذیل میں انتخابِ عنوان میں معاون چند اہم ذرائع پیش کئے جاتے ہیں:
(1)احساسات و مشاہدات
(2)کثرتِ مطالعہ
(3)اصنافِ تحریر سے گہری واقفیت
(4)فہارس و اشاریوں کا استعمال
(5)زیرِ مطالعہ کتاب کے مصادر و مراجع پر نظر
(6)سوشل میڈیا کے علمی و تحقیقی پلیٹ فارمز پر نظر
(7)کتب خانوں میں آنا جانا
(8)رسائل و جرائد سے شغف
انتخابِ عنوان میں سب سے اہم ترین حصہ احساسات اور مشاہدات کا ہوتا ہے۔ اگر آپ لکھنا چاہتے ہیں لیکن کوئی عنوان نہیں مل رہا تو تسلیم کرلیں کہ آپ اپنے احساسات و مشاہدات کو بروئے کار نہیں لارہے۔ مثلاً آپ مسجد جانے کے لیے گھر سے نکلے، دوسری یا تیسری گلی میں مسجد ہے اور مسجد جاتے جاتے راستے میں آپ نے کیا کیا دیکھا؟ گلی میں گندہ پانی پھیلا ہوا ہے تو اس کا سبب کیا تھا؟ اگر آپ ایک لکھاری ہیں یا لکھنے کے شائق ہیں تو فوری طور پر آپ کو محسوس کرنا چاہئے کہ ”راہِ خدا کے مسافروں کا بھلا کیجئے، صفائی نصف ایمان ہے“ وغیرہ پر لکھا جائے۔
آپ کلاس میں ہیں، طلبہ سبق سنا رہے ہیں، ایک طالب علم محنت تو کرتا ہے لیکن عربی کتاب سے سبق کی تیاری میں کافی دقت محسوس کرتاہے، آپ نے اس کی دقت کو محسوس کرتے ہوئے گذشتہ پڑھائے گئے سبق کے الفاظ معانی پر مشتمل لغت تیار کردی، یونہی کتاب مکمل ہونے تک کتاب کی مکمل لغت تیار ہوجاتی ہے۔
آپ قراٰن پاک کی تلاوت میں مصروف ہیں، کیا دیکھتے ہیں کہ کہیں ”غفور رحیم“، توکہیں ”تواب رحیم“ آرہا ہے۔ کہیں ”علیم خبیر“ اور کہیں ”شھید، قدیر، حکیم وغیرہ“ آرہا ہے۔ یہاں آپ محسوس کرتے ہیں کہ کوئی بات تو ہے کہ یہ اسمائے الٰہیہ بدل بدل کر آرہے ہیں تو آپ اس پر تحقیقی مقالہ یا مضمون لکھنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔
تلاوتِ قراٰن کے دوران کئی مقامات پر”لھم الجنۃ“کے الفاظ پڑھے تو آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ یہ الگ الگ لوگ ہیں جن کے لئے ”لھم الجنۃ“ کے الفاظ سے خوش خبری دی گئی ہے تو آپ ”قرآنی بشارتیں، جنت کے حق دار کون، جنّت کے قرآنی وعدے وغیرہ“ جیسے کسی عنوان پر لکھنے کا احساس پاتے ہیں۔
الغرض یہ احساس کی کیفیات ہیں ، اگر لکھنے کے شائقین ان کو جگانے میں کامیاب ہوجائیں تو عنوانات کی کہیں کمی نہ رہے۔ بطورِ مثال مختصر اور سادہ عنوانات بیان کئے ہیں البتہ تفصیلی تحقیقی عنوانات بھی اسی طرح بنائے جاسکتے ہیں۔
احساسات و مشاہدات کے ساتھ ساتھ کثرتِ مطالعہ سے بھی کثیر عنوانات تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔ جس قدر مطالعہ وسیع ہوگا اسی قدر تشنہ اور قابلِ تحقیق عنوانات پر نظر ہوگی۔ دورانِ مطالعہ كئی ایسی جہات سامنے آتی ہیں کہ جن پر مزید تفصیلات کی حاجت ہوتی ہے لیکن وہ سب یکجا نہیں ملتا ، یوں تشنہ عنوانات پر اطلاع ہوتی ہے اور انہیں تحقیقی مقالہ یا مضمون کے لئے منتخب کیا جاسکتاہے مثلاً میں ایک مرتبہ کاتبینِ وحی کے بارے میں مطالعہ کررہا تھا تو مختلف کتب میں مختلف تحقیقات اور کاتبین کی مختلف تعداد دیکھنے کو ملی، اس سے ذہن بنا کہ کاتبینِ وحی کو ”کاتبینِ بارگاہِ رسالت“ کے عنوان سے تحقیقی مقالہ کے طور پر پیش کیا جائے جس میں وحی، خطوط، فرامین، معاہدات اور دستاویزات وغیرہ لکھنے والوں کی الگ الگ تقسیم کی جائے اور اس کا تفصیلی جائزہ پیش کیا جائے۔
اصنافِ تحریر سے گہری واقفیت اور ان میں غورو خوض بھی انتخابِ عنوان میں بہت معاون ہے۔ اصنافِ تحریر کی واقفیت سے ایک ہی موضوع پر کئی کئی مقالات ترتیب دئیے جاسکتے ہیں۔ اصنافِ تحریر کی تفصیل اِن شآءَ اللہ جلد ”ماہنامہ فیضانِ مدینہ“ میں ہی پیش کی جائے گی۔
فہارس اور اشاریوں کو عنوانات کے ذخائر کہنا بےجا نہ ہوگا بشرطیکہ آپ انہیں مستقل مشاہدے کا حصہ رکھیں۔ اکثر کتب کے آخر میں آیات و احادیث کی فہارس مل جاتی ہیں مثلاً اگر آپ مسند احمد بن حنبل کی فہارس دیکھیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ ”ہم الفاظِ احادیث“ کی بھی بڑی تعداد ہے جیسے ”ایاکم، اَلَا، مَن سرہ “ وغیرہ الفاظ سے کئی احادیث وارد ہیں تو ان احادیث کی تعداد دیکھتے ہوئے بھی عنوان منتخب کیا جاسکتا ہے جیسے” ایاکم سے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا تنبیہی اسلوبِ تفہیم، ایک تعارفی جائزہ“۔
فہارس سے مراد کتب و مقالات کے آخر میں دی گئی آیات، احادیث اور موضوعات کی فہارس ہیں جبکہ اشاریوں سے مراد رسائل و جرائد، کتب اور مختلف عنوانات کے تفصیلی اشاریے ہیں۔ جیسا کہ فتاویٰ رضویہ شریف کا اشاریہ ہے، بہارِ شریعت کا بھی اشاریہ ہے۔ اِن اشاریوں کے ذریعے بہت سے ایسے عنوانات پر اطلاع ہوجاتی ہے جن پر مختصر یا الگ نوعیت سے لکھا گیا ہوتا ہے جبکہ انہی عنوانات پر مفصل تحقیقی مقالہ لکھ کر علمی اضافہ کیا جاسکتاہے۔
زیرِ مطالعہ کتاب کے مصادر و مراجع پر نظر
زیرِ مطالعہ کتب کے مصادرو مراجع بھی انتخابِ عنوان میں معاون ہوتے ہیں۔ بعض دفعہ محوّلہ کتب میں مخطوطات بھی شامل ہوتے ہیں تو ان میں مخطوطات پرتحقیقی مقالہ لکھا جاسکتا ہے، کسی مخطوط کی تحقیق و تخریج کی جاسکتی ہے، اسی طرح مصادر و مراجع سے کئی غیر معروف کتب کا علم ہوجاتا ہے جن کا ترجمہ، تخریج، حاشیہ نگاری یا شرح کا کام بطورِ تحقیقی مقالہ کیا جاسکتاہے، صرف یہی نہیں بلکہ بعض کتب کے صرف مصادر و مراجع کا تحقیقی جائزہ بھی بطورِ مقالہ لکھا جاسکتا ہے مثلاً ”فیضانِ سنّت کی ثقاہت کا تحقیقی جائزہ، مصادر و مراجع کی روشنی میں“، ”فتاویٰ رضویہ کے فقہی مصادر کا ایک جائزہ“، ”فتاویٰ رضویہ کے حدیثی مصادر کا ایک جائزہ“، ”کفریہ کلمات کے بارے میں سوال و جواب کی کتابیات کا تحقیقی جائزہ“ وغیرہ۔
سوشل میڈیا کے علمی و تحقیقی پلیٹ فارمز پر نظر
سوشل میڈیا اور دیگر نیٹ ورکس پر بھی بہت سے علمی پلیٹ فارمز موجود ہیں جن سے کثیر کتب اور عنوانات تک رسائی ممکن ہے۔ اگر آپ سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں تو کتب، آرٹیکلز، یونیورسٹیز اور اہلِ علم کے پیجز اور گروپس وغیرہ جوائن کریں یا ویسے ضرورتاً وِزٹ کریں، خاص طور پر جب بھی کوئی علمی پوسٹ شیئر ہو تو اس کے کمنٹس لازمی دیکھیں کیونکہ کمنٹس میں اکثر تنقیدی و اصلاحی ہر طرح کے میسجز ہوتے ہیں جو کہ کئی نئے عنوانات کو جنم دیتے ہیں یا جاری عنوانات کے تنوع کی جانب رہنمائی کرتے ہیں۔
اگر آپ کا کتب خانوں یعنی لائبریریز، کتب کی مارکیٹس اور کتب کی آن لائن ویب سائٹس وغیرہ کے وزٹ کا معمول نہ ہو تو آپ کو تحقیقی مقالہ کے لئے عنوان نہ ملنے کا شکوہ ہرگز نہیں کرنا چاہئے۔ کیونکہ انتخابِ عنوان کا سب سے بڑا اور واضح میدان تو آپ نے بالکل چھوڑ رکھا ہے۔ یادرکھیں کہ جس قدر کتب خانوں کے وزٹ کی عادت ہوگی، نئی سے نئی کتب، نئے سے نئے رجحانات تالیف وتحقیق سے آگاہی ہوگی، ایک ہی موضوع پر متنوع کتب دیکھنے کو ملیں گی، اس وزٹ سے آپ اپنے پاس موجود ایک آدھ عنوان کو بھی کئی طرح سے تقسیم کرنے اور متنوع بنانے کے قابل ہوجائیں گے مثلاً کچھ عرصہ قبل لائبریری میں ایک کتاب”جامع الشروح والحواشی“ نظر سے گزری، کچھ دیر جائزہ لیا تو اندازہ ہوا کہ پاک و ہند میں لکھی گئی شروحات اور حواشی کا معتدبہ حصہ اس میں شامل نہیں، وہیں خیال گزرا کہ اس پر ایک مقالہ بعنوان”برصغیر کے درسی حواشی و شروحات کا استقرائی جائزہ“ لکھا جانا چاہئے۔
بہرکیف کتب خانے آن لائن ہوں یا لائبریریز کی شکل میں وزٹ ضرور کرنا چاہئے اِن شآءَ اللہ بہت فائدہ ہوگا۔
رسائل و جرائد میں شائع ہونے والے مضامین پر غور کرنا چاہئے، کئی مضامین ایسے ہوتے ہیں کہ جن پر تفصیلی مقالہ لکھا جاسکتا ہے لیکن مضمون نگار اشاعتی مجبوری کے باعث صرف دو سے تین صفحات ہی لکھتاہے، ایسے عناوین کو بھی انتخابِ عنوان کے وقت پیشِ نظر رکھنا چاہئے مثلاً:
بعض مضامین سیریل وائز یا قسط وار لکھے جاتے ہیں ان سے بھی تحقیقی مقالہ کے لئے انتخابِ عنوان میں معاونت ملتی ہے جیسے اگر ماہنامہ فیضانِ مدینہ کی مضامین سیریل”کیسا ہونا چاہئے؟“ پر غور کریں تو ایک اہم عنوان ”اہم معاشرتی کرداروں کی ذمہ داریاں اور حقوق“ بنایا جاسکتاہے۔
اسی طرح سیریل ”حسنِ معاشرت کے نبوی اصول“ پر غور کیا جائے تو یہی عنوان تحقیقی مقالہ لئے منتخب کیا جاسکتاہے اور اگر چاہیں تو کچھ حدود و قیود کا اضافہ یا تبدیلی کی جاسکتی ہے جیسے
*”حسنِ معاشرت کے قرآنی اصول“
*”حسنِ معاشرت اور قرآن و سنّت“
*”حسنِ معاشرت کے بنیادی اصول قراٰن و سنت کی روشنی میں“
*حسنِ معاشرت کا اسلامی تصور اور اس میں اسلامی تعلیمات کا کردار“ وغیرہ۔
عنوان کے انتخاب کے لئے دئیے گئے ان چند نکات کو عمل میں لائیں گے تو اِن شآءَ اللہ کثیر عنوانات تجویز کرنے میں سہولت پائیں گے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ رکن مجلس ماہنامہ فیضانِ مدینہ کراچی
Comments