العلم نور
مثال کی ضرورت واہمیت
*مولانا محمد آصف اقبال عطّاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ جنوری 2025
اللہ پاک نے انسان کو عقل کے نور عطا فرمایا تاکہ انسان صحیح و غلط میں فرق کرسکے۔پھر عقل کے لحا ظ سے انسان مختلف درجات میں بٹے ہوئے ہیں، کوئی زیادہ عقل مند توکوئی کم عقل۔ جب حقیقت یہ ہے کہ بعض انسان کم عقل اور کم فہم ہیں تو انہیں عقلی اور غیر محسوس بات سمجھانے کے لئے کسی ایسی شے کی مثال بیان کی جاتی ہے جوان کی دیکھی بھالی ہو، ان کی عادات اور روزمرہ سے تعلق رکھتی ہواور وہ شب وروز اس کا نظارہ کرتے ہوں۔
ہم صبح شام یہ کہتے نظر آتے ہیں ”مثال کے طورپر“، ”مثلاً“، ”جیسے“، یا ”اسے یوں سمجھ لو“ وغیرہ اور ہمارا ٹیچر یا ٹیوٹر بھی ہمیں باربار ”For example“ کہہ کہہ کر سمجھاتا ہے۔ اس طرح ہم مثال دے کر بات سہولت کے ساتھ دوسرے کو ذہن نشین کرادیتے ہیں۔
امام فخرالدین رازی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:مثالیں دینا عقلی طور پر پسندیدہ ہے۔([i]) معلوم ہوا کہ ”مثال“ کو ہماری زندگی میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔
مثال دینے کامقصد:
مثال دینے کا مقصد کیا ہوتا ہے؟ تو اس بارے میں اہلِ علم و فن نے مختلف الفاظ کے ساتھ رائے کا اظہار کیا ہے، چندآراء ملاحظہ کیجئے:
تاجُ العروس میں شرح نظم الفصیح کے حوالے سے ہے: ضَرْبُ الْمَثَلِ اِیْرَادُہٗ لِیُتَمَثَّلَ بِہ وَ یُتَصَوَّرَ مَا اَرَادَ المُتَکَلِّمُ بَیَانَہٗ لِلْمُخَاطَب یعنی مثال اس لئے لائی جاتی ہے تاکہ اس کے ذریعے مشابہت و مماثلت (Similarity) بیان کی جائے اور متکلم نے جو بات مخاطب سے بیان کرنے کا ارادہ کیا ہے اس کا تصور کیا جائے۔([ii])
امام فخر الدین رازی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: مثال دینے کا مقصد دِلوں میں اثر پیدا کرنا ہوتا ہے جو خود اس شے سے نہیں ہوتا کیونکہ مثال سے غرض یہ ہوتی ہے کہ غیرواضح بات کی واضح سے اور غائب کی حاضر وموجود شے سے مشابہت و مماثلت بیان کی جائے اور یہ مشابہت اس شے کی حقیقت سمجھنے میں پختگی پیدا کرتی ہے اور حس کو عقل کے مطابق کردیتی ہے۔کیا تم نہیں دیکھتے جب ایمان لانے کی ترغیب مثال دیے بغیر ہو تووہ دل پر اس قدر پختہ اثر نہیں کرتی جتنا کہ اس وقت کرتی ہے جب ایمان کی مثال نوروروشنی سے دی جائے۔یوں ہی جب تم صرف کفر کا ذکرکرکے ڈراؤگے تو عقلوں میں اس کی قباحت وبرائی اس طرح پختہ نہیں ہوگی جیسا کہ ظلمت و اندھیرے سے مثال کے ذریعے ہوگی۔اسی طرح اگر تمہیں کسی بات کی کمزوری بیان کرنی ہوتو اس کی مثال مکڑی کے جالے سے دوگے تو یہ اس خبر سے یقینی طور پر زیادہ اثرانگیز ہوگی جو صرف ’’کمزوری‘‘ کے ذکرپر مشتمل ہو۔([iii])
مفسر شہیر حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:مثال سے مقصود یہ ہوتا ہے کہ معقول چیز محسوس بن کر ہر ایک کی سمجھ میں آجائے اور اس کے ذریعے مضمون کو دل قبول کرے۔([iv])
مثال کیسی ہونی چاہئے؟
جوبات قاعدہ وقانون کے تحت کی جاتی ہے وہ اپنی ایک حیثیت رکھتی ہے اور قابلِ توجہ وقابلِ دلیل قرار پاتی ہے ورنہ وہ فضول ٹھہرتی ہے اسی طرح مثال بیان کرنے کا بھی ایک قاعدہ ہے۔ یہ سمجھنے کے لئے درج ذیل تین اقتباسات کافی ہیں:
(1)کسی چیز کا جیسا حال ہوگا اسی قسم کی چیز سے اس کی مثال دی جائے گی۔بڑی چیز کی مثال بڑی اور حقیر چیز کی مثال حقیر چیز، اس پر اعتراض کرنا محض غلط اور بے جا ہے بلکہ یہ تو کمال حکمت ہے کہ مثال اصل کے مطابق ہو حقیر چیزوں کی مثال چھوڑدینی اور ان کے بغیر مثال لانا ان کے سمجھانے کے لئے کافی نہ ہوگا۔مثل مشہور ہے کہ مثال اقوال کا چراغ ہے۔ چراغ خواہ سونے کا ہو خواہ مٹی کا روشنی میں فرق نہیں رکھتا۔([v])
(2)مثال سمجھانے کو ہوتی ہے نہ کہ ہر طرح برابری بتانے کو۔ قراٰنِ عظیم میں نورِ الٰہی کی مثال دی
(كَمِشْكٰوةٍ فِیْهَا مِصْبَاحٌؕ-)
(ترجَمۂ کنزالایمان: جیسے ایک طاق کہ اس میں چراغ ہے)([vi])
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
کہاں چراغ اور قندیل اور کہاں نورِ رب جلیل۔([vii])
قراٰنِ کریم اور مثال:
جب ہم قراٰنِ کریم کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں اس مقدس کتاب میں جابجا ”مثالیں“ نظر آتی ہیں اورایسا کیوں نہ ہو کہ اس کتاب کا مقصد ہی ”وضاحت وبیان“ ہے جیسے توحید و رسالت، عقائد و نظریات، شریعت وطریقت اورظاہر وباطن کا بیان وغیرہ۔ ارشادِباری تعالیٰ ہے:
(وَنَزَّلْنَا عَلَیْكَ الْكِتٰبَ تِبْیَانًا لِّكُلِّ شَیْءٍ)
ترجَمۂ کنزالایمان: اور ہم نے تم پر یہ قرآن اتارا کہ ہر چیز کا روشن بیان ہے۔([viii])
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
اور مثالیں بیان کرنے کے متعلق ارشادِ ربانی ہے:
(وَتِلْكَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَتَفَكَّرُوْنَ(۲۱))
ترجَمۂ کنزالایمان:اور یہ مثالیں لوگوں کے لئے ہم بیان فرماتے ہیں کہ وہ سوچیں۔([ix])
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
قراٰنِ کریم سے 2 مثالیں:
آئیے اب قراٰنِ کریم سے 2 مثالیں ملاحظہ کیجئے کہ وہ کس اچھے انداز سے مخاطب کے ذہن کو اصل مقصود کے قریب کرتی، تسلی بخش دعوتِ فکر دیتی اورعمدہ انداز میں کسی فعل کی ترغیب دلاتی یا کسی فعل سے نفرت پیدا کرتی ہیں۔
(1)ارشادباری تعالیٰ ہے:
(یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗؕ-اِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ لَنْ یَّخْلُقُوْا ذُبَابًا وَّلَوِ اجْتَمَعُوْا لَهٗؕ-وَاِنْ یَّسْلُبْهُمُ الذُّبَابُ شَیْــٴًـا لَّا یَسْتَنْقِذُوْهُ مِنْهُؕ-ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوْبُ(۷۳))
ترجَمۂ کنزُالایمان: اے لوگو! ایک کہاوت فرمائی جاتی ہے اسے کان لگا کر سنو وہ جنہیں اللہ کے سوا تم پوجتے ہو ایک مکھی نہ بناسکیں گے اگرچہ سب اس پر اکٹھے ہوجائیں اور اگر مکھی ان سے کچھ چھین کرلے جائے تو اس سے چھڑا نہ سکیں کتنا کمزور چاہنے والا اور وہ جس کو چاہا۔([x])
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
(2)نیز ارشادفرماتاہے:
(مَثَلُ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَوْلِیَآءَ كَمَثَلِ الْعَنْكَبُوْتِۖۚ-اِتَّخَذَتْ بَیْتًاؕ-وَاِنَّ اَوْهَنَ الْبُیُوْتِ لَبَیْتُ الْعَنْكَبُوْتِۘ-لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ(۴۱))
ترجَمۂ کنز الایمان: ان کی مثال جنہوں نے اللہ کے سوا اور مالک بنالیے ہیں (معبود ٹھہرالیا) مکڑی کی طرح ہے اس نے جالے کا گھر بنایااور بیشک سب گھروں میں کمزور گھر مکڑی کا گھر کیا اچھا ہوتا اگر جانتے۔([xi])
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
امام فخرالدین رازی رحمۃُ اللہِ علیہ ان دونوں آیات کے تعلق سے فرماتے ہیں:جب اللہ پاک نے ان کے بتوں کی عبادت اور عبادت رحمٰن سے ان کی دشمنی کی قباحت بیان کرنے کا ارادہ فرمایاتو مکھی کی مثال ہی مناسب تھی کہ ان بتوں سے مکھی کے نقصان کا خاتمہ نہیں کیا جاسکتا اورمکڑی کے گھر (جالے) کی مثال دی تاکہ واضح ہوجائے کہ ان بتوں کی عبادت اس سے بھی کمزور ہے۔ایسی مثال میں جس کی مثال دی گئی وہ کمزور ترین ہوتا ہے جبکہ مثال قوی اور واضح ترین ہوگی۔ ([xii])
یہ صرف 2 قراٰنی مثالیں ہیں جو یہاں ذکر کی گئیں ورنہ جب ہم اس بے مثال کتاب کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم پر یہ بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ اس میں علم وحکمت کو اپنے دامن میں سموئے ہوئے مثالوں کے چراغ انسان کوہدایت کی روشنی پہنچا رہے ہیں۔
احادیثِ کریمہ سے 2 مثالیں:
قراٰنِ کریم کی طرح احادیثِ کریمہ میں بھی مثالوں کا استعمال بکثرت ملتا ہے۔حضورنبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے اصحاب اور قیامت تک آنے والے امتیوں کو دین کا پیغام آسانی اور وضاحت کے ساتھ سمجھانے کے لئے کئی مواقع پر روز مرہ زندگی سے مثالیں دی ہیں۔یہاں دو مثالیں ذکر کی جاتی ہیں۔
پہلی مثال اور اس کی وضاحت:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:میری اور مجھ سے پہلے انبیا کی مثال ایسی ہے جیسے کسی آدمی نے گھر بنایا اور اس کے سجانے اور سنوارنے میں کوئی کمی نہ چھوڑی مگر کسی گوشے میں ایک اینٹ کی جگہ خالی چھوڑ دی۔ لوگ اس کے گرد پھرتے اور تعجب سے کہتے،بھلا یہ اینٹ کیوں نہ رکھی گئی؟فرمایا:وہ اینٹ میں ہوں۔میں سارے انبیا سے آخری ہوں۔([xiii])
اہلِ اسلام کا یہ تسلیم کیا ہوا عقیدہ ہے کہ حضورخاتم الانبیاء صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اللہ پاک کے آخری نبی ہیں۔ آپ کے بعدقیامت تک کوئی نیا نبی نہیں آئے گا۔ اس عقیدہ ختم نبوت کا منکر کافرو مرتد یعنی دائرہ اسلام سے خارج ہے۔اس حدیث شریف میں بڑے ہی عمدہ انداز میں ایک آسان مثال کے ذریعے ختمِ نبوت کا عقیدہ سمجھایا گیا ہے تاکہ عام سے عام شخص بھی سمجھ جائے مگر انتہائی بدنصیبی و محرومی مرزا غلام احمد قادیانی کی جو اس آسان سی مثال کو نہ سمجھ سکا یا پھر جان بوجھ کر نہ سمجھا اور نبوت کا جھوٹا دعویدار بن بیٹھا اور اپنے لئے دنیا و آخرت کی ذلت و رسوائی خرید لی۔
دوسری مثال اور اس کی وضاحت:
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے کہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:اللہ تعالیٰ کی حدوں کو قائم رکھنے والوں اور توڑنے والوں کی مثال ایسی ہے جیسے کشتی کے سوار وں نے اپنا حصہ تقسیم کر لیا۔بعض کے حصے میں اوپر والا حصہ آیا اور بعض کے حصے میں نیچے والا پس جولوگ نیچے تھے انہیں پانی لینے کیلئے اوپر والوں کے پاس جانا پڑتا تھا انہوں نے کہا کہ کیوں نہ ہم اپنے حصے میں سوراخ کر لیں اور اوپر والوں کے پاس جانے کی زحمت سے بچیں پس اگر وہ انہیں ان کے ارادے کے مطابق چھوڑے رہیں تو سب ہلاک ہوجائیں اور اگر ان کے ہاتھ پکڑلیں تو سارے بچ جائیں۔([xiv])
اس حدیث شریف میں ایک مثال کے ذریعے بُرائی سے روکنے اور نیکی کا حکم دینے کی اہمیت کو واضح کیا گیا ہے اور بتایاگیا کہ اگر یہ سمجھ کر اَمر بِالْمَعرُوف وَنَہی عَنِ الْمُنکر کا فریضہ ترک کر دیا جائے کہ بُرائی کرنے والا خود نقصان اٹھا ئے گا ہمارا کیا نقصان ہے! تو یہ سوچ غلط ہے۔ا س لئے کہ اس کے گناہ کے اثرات تمام معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں اور جس طرح کشتی توڑنے والااکیلا ہی نہیں ڈوبتا بلکہ وہ سب لوگ ڈوبتے ہیں جو کشتی میں سوار ہیں، اسی طرح بُرائی کرنے والے چند افراد کا یہ جرم تمام معاشرے میں زخم بن کر پھیلتا ہے۔([xv])
عقلمندانِ اسلام اور مثال:
قراٰن وحدیث کے طریقہ کی پیروی کرتے ہوئے بعض بُزرگوں اور اسلام کے عقلمندوں نے بھی اپنی کتابوں میں سمجھانے کے لئے بہت سی مثالیں دی ہیں۔اس حوالے سے پُرانے بزرگوں میں حجۃ الاسلام امام محمد بن محمد بن محمد غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ کا نام سرفہرست ہے۔ اس پر آپ کی ساری کتابیں بالخصوص ”احیاءُ العلوم“ گواہ ہے۔ جبکہ قریبی دور میں مفسر شہیر حکیمُ الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ تو مثال دے کر سمجھانے میں اپنی مثال آپ ہیں۔ تفسیر نعیمی ہو یا مراٰۃ المناجیح، رسائلِ نعیمیہ ہوں یا مواعظِ نعیمیہ، آپ کی تقریباً ہر کتاب میں مثالوں کی کثرت پائی جاتی ہے۔ اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے آپ کے حالاتِ زندگی پر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھنے والے جناب شیخ بلال احمد صدیقی صاحب تحریر فرماتے ہیں:
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان (مفتی احمد یارخان نعیمی)کاذہن خاص طور پر اسی ضرورت کی طرف زیادہ متوجہ تھا کہ عامۃ الناس کے حلقوں کے لئے اور کم پڑھے لکھے لوگوں کے لئے آسان اور مفید لٹریچر پیدا کرنا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے چنانچہ وہ خود فرمایاکرتے تھے:’’میں جب لکھنے کے لئے بیٹھتا ہوں تو یہ بات مد نظر رکھتا ہوں کہ میں بچوں،عورتوں اور دیہات کے کم پڑھے لوگوں سے مخاطِب ہوں۔‘‘ تفسیر لکھنے کا آغاز کیا تو اس میں بھی ان کا بنیادی احساس یہی تھا کہ ایسی سادہ اور آسان زبان میں قرآن حکیم کی تفسیر لکھی جائے جس سے قرآن حکیم کے مشکل مسائل بھی آسانی سے سمجھ آسکیں، تفسیر نعیمی کے دیباچے میں لکھتے ہیں:’’بہت کوشش کی گئی ہے کہ زبان آسان ہو اور مشکل مسائل بھی آسانی سے سمجھا دیئے جائیں۔“ چند لائنوں کے بعدشیخ بلال احمد لکھتے ہیں: ان کی انتہائی کوشش یہ ہوتی کہ کم خواندہ (کم تعلیم)سے کم خواندہ آدمی بھی ان کی بات کو سمجھ سکے۔مضمون کو واضح اور سہل بنانے کے لئے روز مرہ زندگی سے بکثرت مثالیں منتخب کرلیتے۔([xvi])
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ شعبہ تراجم، اسلامک ریسرچ سنٹر المدینۃ العلمیہ کراچی
Comments