پیشانی پر محراب

العلم نور

پیشانی پر محراب

*مولانا احمد رضا مغل عطّاری مدنی

ماہنامہ اگست 2024

بعض نمازی لوگوں کی پیشانی پر گہرے سانولے یا بھورے (Dark Brown) رنگ کے نشان ہوتے ہیں جسے محراب بھی کہتے ہیں۔ نمازیوں کے چہرے پر نشان کا تذکرہ قراٰن و حدیث میں بھی ملتا ہے۔ جیساکہ اللہ پاک قراٰنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے:

(تَرٰىهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا یَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَانًا٘-سِیْمَاهُمْ فِیْ وُجُوْهِهِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِؕ-ذٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِی التَّوْرٰىةِ ﳝ- )

ترجَمۂ کنزُالایمان:تو انہیں دیکھے گا رکوع کرتے سجدے میں گرتے اللہ کا فضل و رضا چاہتے ان کی علامت اُن کے چہروں میں ہے سجدوں کے نشان سے یہ ان کی صفت توریت میں ہے۔ ([i])

اس آیت کی تفسیر میں مفتی محمد قاسم عطاری مَدَّ ظِلُّہُ العالی تحریر فرماتے ہیں: ان کی عبادت کی علامت ان کے چہروں میں سجدوں کے اثر سے ظاہر ہے۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ یہ علامت وہ نور ہے جو قیامت کے دن اُن کے چہروں سے تاباں ہوگا اور اس سے پہچانے جائیں گے کہ انہوں نے دنیا میں اللہ تعالیٰ کی رضاکے لئے بہت سجدے کئے ہیں۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ وہ علامت یہ ہے کہ ان کے چہروں میں سجدے کا مقام چودھویں رات کے چاند کی طرح چمکتا دمکتا ہوگا۔ حضرت عطاء رحمۃُ اللہِ علیہ کا قول ہے کہ رات کی لمبی نمازوں سے اُن کے چہروں پر نور نمایاں ہوتا ہے جیسا کہ حدیث شریف میں ہے: ”جو رات میں کثرت سے نماز پڑھتا ہے تو صبح کو اس کا چہرہ خوب صورت ہوجاتا ہے۔“ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ گرد کا نشان بھی سجدہ کی علامت ہے۔([ii])

عَنْ اَبِي اُمَامَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَيْسَ شَيْءٌ اَحَبَّ اِلَى اللهِ مِنْ قَطْرَتَيْنِ وَاَثَرَيْنِ قَطَرَةُ دُمُوعٍ مِنْ خَشْيَةِ اللهِ وَقَطَرَةُ دَمٍ تُهَرَاقُ فِي سَبِيْلِ اللهِ وَاَمَّا الْاَثَرَانِ فَاَثَـرٌ فِي سَبِيْلِ اللهِ وَاَثَـرٌ فِي فَريْضَةٍ مِنْ فَرائِضِ اللهِ

یعنی حضرت ابو امامہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک کو دو قطروں اور دو نشانوں سے زیادہ کوئی شے محبوب نہیں۔ (دو قطروں میں سے ایک)آنسو کا وہ قطرہ جو اللہ پاک کے خوف سے نکلے، (دوسرا)خون کا وہ قطرہ جو اللہ پاک کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے نکلے۔ دو نشانوں میں سے ایک نشان وہ ہے جو اللہ پاک کے راستے میں پڑ ے، دوسرا نشان وہ ہے جو اللہ پاک کے فرائض میں سے کسی فریضے کو سرانجام دیتے ہوئے پڑے۔([iii])

 محمد بن علّان الشافعی رحمۃُ اللہِ علیہ اس حدیث پاک کی روشنی میں لکھتے ہیں: پہلا نشان وہ ہے جو اللہ پاک کے راستے میں پڑے، یعنی تلواریا نیزہ لگنے کے بعد زخم کا جو نشان باقی رہے اور دوسرا نشان وہ جو اللہ پاک کے فرائض میں سے کسی فریضے کو سر انجام دیتے ہوئے پڑے، جیسے (سردیوں میں ٹھندے پانی سے وضو کرنے کی وجہ سے) اعضاءِ وضو کا پھٹنا اور سجدے کا نشان۔([iv])

حضرت ابو مالک اَشْعَرِی رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ پاک کے آخری نبی محمدِ عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اَلصَّلَاةُ نُوْرٌ یعنی نماز نور ہے۔([v])

حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ اِس حدیث ِ پاک کے تحت لکھتے ہیں : یعنی نماز مسلمان کے دل کی، چہرے کی،قبر کی، قِیامت کی روشنی ہے۔ پُل صراط پر سجدے کا نشان بیٹری (ٹارچ) کا کام دےگا۔ رب فرماتا ہے:

(نُوْرُهُمْ یَسْعٰى بَیْنَ اَیْدِیْهِمْ)

(ترجَمۂ کنزالایمان: ان کا نور دوڑتا ہوگا ان کے آگے)۔ ([vi])

پڑھتے رہو نماز تو چہرے پہ نور ہے

پڑھتا نہیں نماز وہ جنّت سے دور  ہے

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

*(مدنی چینل فیضانِ مدینہ،کراچی)



([i])پ 26، الفتح: 29

([ii])صراط الجنان، 9/389-خازن، الفتح، تحت الآیۃ: 29، 4/162- مدارک، الفتح، تحت الآیۃ: 29، ص1148ملتقطا

([iii])ترمذی، 3/253، حدیث:1675

([iv])دلیل الفالحین، 2/373، تحت الحدیث: 455ملخصاً

([v])مسلم، ص115، حدیث:534

([vi])پ28، التحریم: 8- مراٰۃ المناجیح،1/232


Share