مطالعہ سیرت کے مقاصد

العلم نور

مطالعۂ سیرت کے مقاصد

*مولانا محمد آصف اقبال عطاری مدنی

ماہنامہ ستمبر 2024

اللہ پاک کے آخری نبی محمد عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مبارک سیرت کا مطالعہ بڑی سعادت کی بات ہے، ہمیں سیرتِ رسول کے مطالعہ و فہم کو دوسرے ایسے تاریخی مطالعے جیسا نہیں سمجھنا چاہئے جس کا معاملہ کسی سلطان و بادشاہ کی سوانحِ عمری یا کسی پُرانے تاریخی زمانے سے آگاہی جیسا ہوتا ہے۔ بلکہ سیرتِ رسول کے مطالعہ سے ہمارا اصل مقصود یہ ہونا چاہئے کہ ایک بندۂ مسلم اپنے نبیِ محترم، رسولِ مکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ذاتِ اقدس میں اسلام کی زندہ و جاوید سچائی کو مجسم دیکھے۔ سیرتِ نبوی کے مطالعہ کے اس مقصد کو اگر مزید حصوں میں تقسیم کریں تو ان کا احاطہ درج ذیل مقاصد میں کیا جاسکتا ہے:

مطالعہ سیرت کا پہلا مقصد

رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی پاکیزہ زندگی اور وہ حالات جن میں آپ نے مبارک زندگی کے شب و روز گزارے ان کے ذریعے آپ کی پیغمبرانہ شخصیت کو سمجھا جائے تاکہ کامل یقین حاصل ہو کہ اللہ پاک کے آخری پیغمبر جنابِ محمدِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم محض ایک عبقری و باکمال شخصیت نہ تھے کہ اپنی باکمالی کے سبب اپنی قوم میں سب سے اونچے مرتبہ پر فائز ہوگئے بلکہ اس سے بھی پہلے وہ اللہ تعالیٰ کے پیارے پیغمبر ہیں جنہیں اللہ پاک نے اپنی وحی سے نوازا اور اپنی عطا کردہ توفیق سے اُن کی مدد و نصرت فرمائی۔

مطالعہ سیرت کادوسرا مقصد

سیرتِ نبوی کو پڑھنے کا ایک مقصد یہ ہوتا ہے کہ جس انسان کو نیک زندگی گزارنی ہے اُسے زندگی کے ہر پہلو پر اپنے سامنے اعلیٰ ترین مثال نظر آئے تاکہ وہ عمل و اتباع کے لئے اُسے دستورِ زندگی بناسکے اور ہمیشہ اُس پر کاربند رہے اور یہ بات ہر قسم کے شک و تردد سے پاک ہے کہ انسان زندگی کے جس گوشے میں بھی اعلیٰ ترین مثال ڈھونڈنا چاہے گا اسے وہ مثال نہایت کمال کے ساتھ اللہ پاک کے آخری نبی حضرت محمدِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مبارک ذات میں ملے گی۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ کریم نے رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ذاتِ اقدس کو ساری انسانیت کے لئے نمونۂ عمل قرار دیا ہے۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:

(لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ)

ترجمۂ کنزُالایمان: بے شک تمہیں رسول اللہ کی پیروی بہتر ہے۔(پ21، الاحزاب: 21)

مطالعہ سیرت کا تیسرامقصد

انسان کو سیرتِ نبوی کے مطالعے سے اللہ پاک کی کتاب کو سمجھنے اور روحِ قراٰن و مقاصدِ قراٰن کو جاننے اور محسوس کرنے میں مدد ملے گی کیونکہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مبارک ذات سے وابستہ واقعات سے اور ان واقعات میں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مبارک طرزِ عمل سے نیز آپ کے کتابِ الٰہی پر کامل عمل سے قراٰنِ کریم کی بہت سی آیتوں کی تفسیر و وضاحت ہوتی ہے جن کے مطالعہ سے فہمِ قراٰن کا معاملہ آسان ہوجاتا ہے۔ حضرت سعد بن ہشّام رضی اللہُ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صِدّیقہ رضی اللہُ عنہا کے پاس آیا اور عرض کی: اے اُمُّ المؤمنین! مجھے رسولِ خدا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اَخلاق کے بارے میں بتائیے؟ آپ نے ارشاد فرمایا: کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْآن یعنی آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا خُلق قراٰن تھا، کیا تُو نے اللہ پاک کا یہ فرمان نہیں پڑھا:

(وَاِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ(۴))

(ترجَمۂ کنزُ العرفان : اور بیشک تم یقیناً عظیم اخلاق پر ہو (پ29،القلم:4))۔(مسند احمد، 9/380، حدیث:24655)

مطالعہ سیرت کاچوتھا مقصد

سیرتِ نبوی کے مطالعے کا ایک اہم مقصد یہ بھی ہے کہ ایک مسلمان کے پاس عقائد، شرعی احکام اور اخلاقیات سے متعلق درست اسلامی ثقافت ومعلومات کا ایک عظیم ذخیرہ اکٹھا ہوجائے،اس سے اُسے پتا چلے گا کہ بندۂ مومن کو کس طرح کے عقائد ونظریات کا حامل ہونا چاہئے، اُسے کن احکامات کے تحت زندگی گزارنی ہے اور اُسے کیسے اخلاق سے متصف ہونا ہے کیونکہ بلا شبہ حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مبارک زندگی اسلام کے جملہ اصول و احکام کی ایک جیتی جاگتی روشن تصویر ہے۔

مطالعہ سیرت کا پانچواں مقصد

سیرتِ رسولِ عربی پڑھنے کا ایک مقصد یہ ہے کہ اسلامی مبلغ اور استاد کے پاس تعلیم و تربیت کے طریقوں کی ایک زندہ مثال موجود ہو، کیوں کہ حضرت محمدِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مسلمانوں کا بھلا چاہنے والے معلِّم اور فضل فرمانے والے مُربِّی ہیں، آپ نے دعوتِ دین کے مختلف مراحل میں تعلیم و تربیت کے مفید ترین طریقوں کی جستجو فرمائی اور ہر وہ طریقہ اختیار فرمایا جو سامنے والے کے ذہن و دل پر دعوت کا بھرپور اثر ڈالے۔

آخر وہ کونسی بات ہے جس کی وجہ سے سیرتِ مصطفےٰ اِن تمام مقاصد کو پورا کرتی ہے؟ وہ اہم بات یہ ہے کہ حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مبارک حیات انسانیت کے تمام پہلوؤں کو محیط ہے۔ انسان کے ایک الگ فرد ہونے اور معاشرے کا فعّال رکن ہونے کی حیثیت سے جو معاشرت انسان میں پائی جاتی ہے اس کے تمام پہلوؤں کا بھی نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مبارک حیات احاطہ کرتی ہے۔چنانچہ علّامہ محمد سعید رمضان بوطی لکھتے ہیں: حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی حیات ہمارے سامنے مثالی نمونے پیش کرتی ہے! کس کے مثالی نمونے؟ ایک ایسے نوجوان کے مثالی نمونے اور اعلیٰ طور طریقے جو درست راہ پر چلتا ہے اور لوگوں، دوستوں کے ساتھ امانت دار ہے۔ ایک ایسے انسان کے اعلیٰ نمونے جو حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ بارگاہِ الٰہی کی طرف بُلاتا ہے، اپنا پیغام پہنچانے کے لئے اپنی پوری کوشش لگادیتا ہے۔ ایک ایسے سربراہِ حکومت کے اعلیٰ انداز جو مہارت و بیدار مغزی اور نہایت دور اندیشی کے ساتھ معاملات کی تدبیر و انتظام کرتا ہے۔ خوش معاملگی میں ایک بے مثال شوہر اور شفقت میں ایک باکمال باپ کے اعلیٰ نمونے جو ساتھ ہی ساتھ بیوی بچّوں کے حقوق اور اُن کی ذمہ داریوں میں پوری طرح فرق رکھتا ہے۔ ایک ماہر عسکری سپاہ سالار کے اعلیٰ انداز۔ ایک صاحبِ بصیرت سچے سیاست دان کے مثالی طور طریقے۔ ایک مسلمان کے اعلیٰ انداز جو کمال درستی و انصاف سے بندگیِ الٰہی کے فریضے کو اور گھر والوں دوستوں کے ساتھ خوش مزاجی والی معاشرتی زندگی کو ساتھ ساتھ لئے چلتا ہے۔ چنانچہ سیرتِ نبویہ کا مطالعہ درحقیقت کچھ اور نہیں بلکہ ان ہی سب انسانی پہلوؤں کو اعلیٰ ترین سانچے میں ڈھلے اور کامل ترین صورت کا لبادہ اوڑھے سامنے لانا ہے۔(فقہ السیرۃ، ص23)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ، شعبہ تراجم، المدینۃ العلمیہ


Share