قصیدہ معراجیہ اور شبِ معراج کی منظر کشی

اللہ  پاک نےامامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان  رحمۃ اللہ علیہ  کے قلم  کوایسی جامعیّت (comprehensiveness)اورقُوّت عطا فرمائی کہ امامِ اہلِ سنّت رحمۃ اللہ علیہ نےجس مسئلہ کی تحقیق(research)میں کوئی کتاب، رسالہ یا فتویٰ تحریر فرمایا تو اُس مسئلےکواَلَمْ نَشرَح (یعنی خُوب واضح)فرما دیا۔ یونہی جس موضوع پربھی اَشعار لکھے  تو اُس کی مَنظرکَشی (visualizing) کا حق ادا فرمادیا،جسے دیکھ کرفنِّ شاعری کے ماہرین حیران ہوجاتے ہیں۔ اس کی زبردست مثال اِنتہائی مختصر سے وقت میں لکھاجانے والا ”قصیدۂ معراجیہ“ہے،جو کہ 67 اَشعار پرمشتمل ہے۔امامِ اہلِ سنّت رحمۃ اللہ علیہ نے اس قصیدے میں حَسین تخیُّلات (خوبصورت خیالات imaginations)کے ساتھ ساتھ جابجا آیاتِ قراٰنیّہ اور اَحادیثِ نَبویّہ کی زبردست ترجُمانی فرمائی ہے۔ نیزآپ  رحمۃ اللہ علیہ  نے اس قصیدے میں سفرِ معراج کے مختلف مرحلوں (stages) کو بڑےفصیح و بلیغ اَلفاظ میں پیش کیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نےاِس قصیدے میں اُردو کے اِستعاروں اورمُحاوروں(idioms) کا کثرت سےاستعمال کیا ہے۔اس قصیدے کی ایک خوبی یہ بھی ہےکہ مجدِّدِ اعظم، اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ  نے واقعۂ معراج کی مناسَبت سے کعبہ و حطیم، مسجدِ اَقصیٰ و نمازِ اَقصیٰ، جِبرَئِیل و بُراق، آسمان و عرشِ اَعظم، سِدرۃُ المنتہیٰ و جنّت اور لامکان و دیدارِ رحمٰن کا تذکرہ بڑے لطیف  اَنداز میں  فرمایا ہے۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ اگرکسی کو سفرِمعراج کا مختصر بیان اُردو زبان میں پڑھنا ہو تو وہ امامِ اہلِ سنّت، اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے اس مبارَک اورمنفرِد(unique)”قصیدۂ معراجیہ“ کو ملاحَظہ کرلے۔ ذیل میں اِسی قصیدے کے چنداَشعار اور ان میں بیان کئے جانے والے مضامین کا مختصرجائزہ پیش کیا جاتاہے۔

(1)وہ سَروَرِ کِشْورِ رِسالت، جو عَرش پر جَلوہ گَرہوئے تھے

نئے نِرالے طَرَب کے ساماں، عَرَب کے مہمان کے لئے تھے

(الفاظ و معانی:سَروَر:بادشاہ۔ کِشْور:مُلک/دیس۔جَلوہ گر:سج دھج کے آنا۔طَرَب کے ساماں:خوشی و مسرَّت کے اسباب)

مذکورہ بالا شعر” قصیدۂ معراجیہ“ کا مَطلع(پہلاشعر)ہے۔اِس کا خلاصہ یہ ہےکہ مُلکِ رسالت کےبادشاہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم معراج کی شب عرشِ اعظم پر جَلوہ فرما ہوئے تھے اور قُدرت کی جانب سے عَرَب کے مہمان،رسولِ ذیشان صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خاطر کائنات میں خوشی و شادمانی کےاَسباب کا اہتمام(arrangement)کیا گیاتھا۔

(2)نَمازِ اَقْصیٰ، میں تھا یہی سِرّ، عیاں ہوں مَعنی اَوَّل آخِر

کہ دَسْت بَستہ، ہیں پیچھے حاضِر، جو سَلطَنت آ گے کر گئے تھے

(الفاظ و معانی:سِرّ:راز۔عِیاں:واضح۔دست بستہ:ہاتھ باندھ کر)

سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے معراج کی رات مسجدِ اقصیٰ میں تمام اَنبیائے کرام علیہمُ الصّلٰوۃ والسَّلام کی اِمامت فرمائی تھی، چنانچہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں:فَجُمِعَ  لِیَ الْاَنْبِیَاءُ عَلَیْھِمُ السَّلَامُ فَقَدَّمَنِیْ جِبْرَ ئِیْلُ حَتّٰی اَمَمْتُھُمْ ”یعنی میری خاطر انبیائے کرامعلیہم السَّلام کو (مسجدِ اَقْصیٰ) میں جمع کیاگیا تو جبرئیلعلیہ السَّلام  نے مجھے آگے بڑھایا یہاں تک کہ میں نے انبیائے کرام علیہم السَّلامکی امامت فرمائی۔“(نسائی، ص81، حدیث:448) مذکورہ بالا شعرمیں امامُ الانبیاء   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو تمام نبیوں کی اِمامت کے لئے آگے بڑھائے جانے کی  ایک حکمت  کوبیان  کیاگیا ہے کہ اِس(آگے بڑھائے جانے)کے ذریعے قدرت کا مقصود مخلوق کو اوّل و آخر کا معنیٰ و مفہوم بتلانا تھا، یوں کہ بظاہرسب سےآخر میں تشریف لانے والےرسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مقام و مرتبے میں سب نبیوں سے اوّل(یعنی پہلے)ہیں،چنانچہ تمام انبیائے کرامعلیہم السَّلام معراج  کی رات  مسجدِ اقصیٰ میں رسولِ اعظم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مقتدی بن کر  ہاتھ باندھے پیچھے کھڑے تھے۔

(3)تَھکے تھے رُوحُ الاَمِیں کے بازُو چُھٹا وہ دامن کہاں وہ پہلو

رِکاب چُھوٹی اُمید ٹُوٹی نِگاہِ حَسرت کے وَلْوَلے تھے

(الفاظ ومعانی:رُوحُ الاَمِیں: حضرت جبرائیل علیہ السَّلام۔رِکاب:گھوڑے پر چڑھنے کا لوہے کا حلقہ۔وَلولے:جوش)

سفرِمعراج میں سِدرۃُ المنتہیٰ پر پہنچ کر جب جبریلِ اَمین علیہ السَّلام رُک گئے تو سُلطانِ اَعظم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اے جبریل! کیا ایسے مقام پر ایک خلیل(یعنی دوست) اپنے خلیل کو چھوڑ دیتاہے؟ تو جبریل علیہ السَّلام نے عرض کی:اِنْ تَجَاوَزْتُہُ اِحْتَرَقْتُ بِالنُّوْر ”یعنی اگرمیں اِس مقام (سدرۃُ المنتھیٰ) سے آگے بڑھا تو نُور کی وجہ سے جَل جاؤں گا۔“(مواھب لدنیہ،ج 2،ص381) ذکرکردَہ شعرمیں اِسی  حالت (condition)کی منظرکَشی کی گئی ہے۔

(4)جُھکا تھا مُجرے کو عرشِ اَعلیٰ گِرے تھے سجدے میں بَزمِ بالا

یہ آنکھیں قدموں سے مَل رہا تھا وہ گِرد قربان ہورہے تھے

(الفاظ و معانی:مُجرے: آداب/سلامی۔ بزمِ بالا:آسمان کے فرشتے)

صُوفیا نے بیان فرمایاہے:جب نبیِّ پا ک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم (سفرِ معراج میں) عرشِ اَعظم تک پہنچے توعرش نے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کےدامنِ کرم کوتھام لیا۔(مواھب لدنیہ،ج 2،ص388)اعلیٰ حضرت  رحمۃ اللہ علیہ نےاس بات کو یوں بیان فرمایا ہےکہ معراج  کی رات گویا عرش ِ اعظم سرکارِعالی وقار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کوسَلامی پیش کرنے کےلئے جھکا، فرشتوں نےربّ  تعالیٰ کی بارگاہ میں سجدۂ شکرکیا،عرش تو قدَمِ مصطفےٰ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمسےآنکھیں مَل رہا تھااورفرشتے آپ  علیہ السَّلام کے اِردگِرد نِثارہورہےتھے۔

(5)بَڑھ اے محمد! قَریں ہو اَحمد! قریب آ سَروَرِ مُمَجَّد! 

   نِثار جاؤں یہ کیا نِدا تھی یہ کیا سَماں تھا یہ کیا مَزے تھے

(الفاظ و معانی:قریں ہو: پاس آؤ۔ سرور: سردار۔ مُمجّد:بزرگی والے۔ سماں: منظر)

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے اس شعر میں ایک روایت کا ترجمہ بھی شامل ہے۔ چنانچہ جب رسولِ ذیشان   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  معراج کی رات سفر کرتے ہوئے قُربِ الٰہی  کےخاص مقام میں پہنچے تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کونِدا (یعنی آواز) دی گئی:اُدْنُ یَاخَیْرَالْبَرِ یَّۃِ،اُدْنُ یَااَحْمَد،اُدْنُ یَامُحَمَّدقریب ہو اےساری مخلوق سے بہتر محبوب!  قریب آؤ  اےاحمد! آگےبڑھو  اے محمد!(صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) (مواھب لدنیہ،ج 2،ص381)

(6)وہ بُرْج بَطحا کا مَاہ پارہ بِہِشْت کی سَیر کو سِدَھارا

چمک پہ تھا خُلد کا سِتارہ کہ اس قَمَر کے قَدَم گئے تھے

(الفاظ و معانی: برج بطحا:مکّہ کی زمین/مکّہ کا گنبد۔ ماہ پارہ: چاند/نہایت حَسین۔بِہِشت:جنّت۔ خُلد: جنّت۔ قمر: چاند)

اس شعر میں قلمِ رضا نے بیان فرمایا کہ مالکِ جنّت  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  شبِ معراج جنّت کی سیر کرنے کیلئے روانہ ہوئے، یوں جنّت کی قسمت کا ستارہ چمک اُٹھا کہ آسمانِ نبوّت کے کامل چاندصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جنّت میں  قدم رنجہ ہوئے تھے۔ چنانچہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے شبِ معراج جنّت میں تشریف لے جانے سے متعلّق ارشاد فرمایا:ثُمَّ اُدْخِلْتُ الْجَنَّۃَ، فَاِذَا فِیْھَا حَبَائِلُ اللُّؤْلُؤِ وَ اِذَا تُرَابُھَا الْمِسْکُ ”یعنی پھر مجھےجنّت میں داخل کیا گیا تو اُس میں موتی کی عمارتیں تھیں اور اُس کی مٹی مُشک تھی۔“ (مسلم، ص89، حدیث:415)

(7)خُدا کی قدرت کہ چاند حق کے کروروں منزل میں جَلوہ کرکے

ابھی نہ تاروں کی چھاؤں بدلی کہ نُور کے تڑکے آ لیے تھے

(الفاظ و معانی: کروروں منزل: بہت زیادہ جگہوں۔ نور کےتڑکے: سویرے کی روشنی)

امام ِ اہلِ سنّت رحمۃ اللہ علیہ کا یہ شعر کئی روایات وتَفاسیر کا خُلاصہ ہے کہ اللہ پاک نے اپنے حبیبِ اَکبر صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو شبِ معراج  صدیوں کا سفر رات کے اِنتہائی معمولی سے وقت میں طے کروا دیا، زنجیرہِل رہی تھی، پانی جاری تھا کہ معراج کے دُولہا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کون ومکاں،آسمان و جِناں(جنّت) اور دیدارِالٰہی کرکے لامکاں سے واپس مکّۂ پاک تشریف لے آئے۔

(8)نَبیِ رَحمت شفیعِ اُمّت! رضؔا پہ لِلّٰہ ہو عِنایَت

اسے بھی ان خِلْعَتوں سے حِصّہ جو خاص رَحمت کے واں بَٹے تھے

(الفاظ و معانی: عِنایت: توجّہ/ نظر/مہربانی۔خلعتوں:تحفے/ عطِیِّات/انعامات۔واں: وہاں)

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ اس مَقطع(تخلُّص پر مشتمل شعر)میں عرض گُزار ہیں کہ اےرحمت والےاوراُمت کی شفاعت فرمانے والےپیارےنبیصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم!خدارا احمدرضا ؔپرعنایت ونوازش فرمائیےاور اِسے بھی اُن خاص رحمت  والےنورانی جوڑوں میں سے اس کاحصّہ عطافرمائیے، جوبارگاہِ الہٰی سےآپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو عطاکئےگئےتھے۔              

_______________________

٭…راشد علی عطاری مدنی   

٭…مدرس جامعۃ المدینہ ،فیضان اولیا،کراچی  


Share

Articles

Comments


Security Code