واہ! کیا بات ہے ماہ رجب المرجب کی

از:شیخِ طریقت، امیرِ اَہلِ سنّت حضرت علّامہ مولانا محمد الیاس عطّاؔر قادری دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ

اےعاشقانِ رسول! اَلْحَمْدُلِلّٰہِ ماہِ مقدّس رَجَبُ المُرجب کی آمد آمد ہے،اس مبارک مہینے کی آمد سے زندگی مسکرا اُٹھی، جینے کی خواہش بڑھ گئی کہ اب تو رجب شریف کی بَرَکتیں بھی لُوٹنی ہیں، شعبانُ المُعَظَّم کی رحمتوں سے بھی حصّہ لینا ہے اور اے کاش! رَمَضانُ المبارک میں بٹنے والی مغفرتوں کی سندوں میں سے کوئی سند حاصل ہوجائے۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہ! اس ماہِ مبارَک کی تشریف آوری سے رَمَضانُ المبارَک کا مین اِنٹرینس (main entrance صدر دروازہ) کُھل گیا، ایک دَم رَمَضان کی یاد تازہ ہوگئی۔ رَجَب شریف کی شان تو دیکھیں، شعبانُ المُعَظَّم کی عظمت تو دیکھیں اور رَمَضان تو پھر رَمَضان ہے، حدیث پاک میں ہے کہ جب رَجَب کا مہینا آتا تو نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اس طرح دُعا فرماتے:اَللّٰہُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْ رَجَبٍ وَّشَعْبَانَ وَبَلِّغْنَارَمَضَان (اے اللہ! ہمیں رَجَب اور شعبان میں بَرَکت عطا فرما اور ہمیں رَمَضان سے ملا دے)۔(موسوعۃابن ابی الدنیا،ج 1،ص361،حدیث:1) یعنی رَجَب میں ہماری عبادتوں میں بَرَکت دے اور شعبان میں خُشُوع و خُضُوع دے اور رَمَضان کا پانا، اس میں روزے اور قِیام نصیب کر۔(مراٰۃ المناجیح،ج 2،ص330) سُبْحٰنَ اللہ! کتنی پیاری دُعا ہے، ہم بھی اپنے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ادا کو ادا کرتے ہوئے حسبِ موقع جب جب یاد آئے یا ہوسکے تو پانچوں نَمازوں کے بعد کم اَز کم ایک مرتبہ اس دُعا کو پڑھتے رہیں، امام صاحبان اگر پنج وقتہ نَمازوں کے بعد یہ دُعا پڑھ لیا کریں بلکہ اپنے نَمازیوں کو پڑھا لیا کریں، جب بھی پڑھیں سنّت کی نیت سے پڑھیں، اللہپاک نے چاہا تو ثواب بھی ملے گا اور مقتدیوں کو یاد کرنے میں بھی آسانی ہوگی۔ اے عاشقانِ رسول! رجب توبہ کا مہینا ہے چنانچہ حضرت علّامہ علی قاری رحمۃ اللہ  علیہ فرماتے ہیں: میں نے اپنے بعض مشائخِ کرام کو اس مہینے میں کثرت سے اِسْتِغفار کرتے ہوئے سنا ہے کہ وہ اس طرح کہا کرتے: اَسْتَغْفِرُ اللہَ ذَاالْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ مِنْ جَمِیْعِ الذُّنُوْبِ وَالْآثَامِ(ترجمہ:میں اللہ بزرگ و برتر سے اپنے تمام گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں۔) (مجموع رسائل العلامۃ الملا علی القاری،ج2،ص291) لہٰذا اللہ پاک کی بارگاہ میں سچّی پکی توبہ کریں کہ یااللہ!اب ہم گناہ نہیں کریں گے، تُو ہی ہم کو بچا اور توبہ پر اِستِقامت عطا فرما۔ یاد رکھئے! جب تک بندہ گناہ چھوڑنے کاپکّا ارادہ نہیں کرتا تب تک توبہ ہوتی ہی نہیں بلکہ یہ تو اللہ پاک سے مذاق ہے۔ حدیثِ مبارَکہ میں ہے:” گناہ پر قائم رہتے ہوئے توبہ کرنے والا اپنے پاک رب سے مذاق کرنے والاہے۔“(التر غیب والترھیب،ج 4،ص48، رقم:19) توبہ کے لئے یہ ضَروری ہے کہ جو گناہ کیا ہے اس پر شرمندگی ہو، اس گناہ کا ذِکْر ہو اور پکّا ارادہ ہو کہ اب یہ گناہ کبھی بھی نہیں کروں گا، میں توبہ کرتا ہوں، تب توبہ ہوگی اوراللہ پاک کی رَحمت سے گناہ معاف ہوگا۔ آپ سب گواہ رہئے گا! میں اپنے سب گناہوں سے توبہ کرتا ہوں، اگر مجھ سے کوئی کُفرہوگیا ہو تو اس سے بھی میں توبہ کرتاہوں لَآاِلٰہَ اِلَّااللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ۔ یااللہ! میں تیری بارگاہ میں اپنے سارے گناہوں سے توبہ کرتا ہوں، اے اللہ! مجھے ایسا کردے کہ میں کبھی بھی تیری نافرمانی نہ کروں۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

نوٹ:یہ مضمون یکم رجبُ المرجب1439ھ کے ”مدنی مذاکرے“کی روشنی میں تیار کرکے امیرِ اہلِ سنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کو چیک کروانے کے بعد پیش کیاجارہا ہے۔


Share