رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سواریاں

باتیں میرے حضور کی

رسول اللہ   صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سواریاں

بلال حسین عطاری مدنی

ماہنامہ ربیع الاول 1440

عاشقانِ رسول  نے رسولِ کریم  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  سے نسبت رکھنے والی ہر ہر چیز کے ذکر کو محفوظ کرنے کی کوشش کی ہے ، یہی وجہ ہے کہ کتبِ سیرت میں ہمیں جہاں سرکارِ دوعالَم  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی مُبارَک سیرت کے انوار نظر آتےہیں ، وہیں آپ سے نسبت رکھنے والی اشیاء مثلاً برتن ، نعلین (یعنی مبارک چپل) ، استعمال کی دیگر اشیاء ، خُدّام وغیرہ کا ذکر بھی ملتاہے۔ سرکارِ دوعالم  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  سے نسبت رکھنے والی خوش بخت اشیاء میں سے آپ کی  چند سواریوں کا مختصر تذکرہ ملاحظہ فرمائیے : بُرَاق یہ سرکارِ مدینہ  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی سواری کے ساتھ ساتھ آپ کا معجزہ بھی ہے۔ اِس انوکھی اور جنّتی سُواری پر  حضورِ پُرنور  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے  مشہور قول کے مُطابِق 27 رجب المرجب کو مکّہ سے بیتُ الْمقدّس تک سفر فرمایا (سیرتِ مصطفےٰ ، ص736) اس کا رنگ سفید ، (مصنف ابنِ ابی شیبہ ، 7 / 422 ، حدیث : 60) سینہ مثلِ یاقوت سرخ ، اور پرندوں کی طرح دو بازو تھے۔ (سیرتِ حلبیہ ، 1 / 521 ، اخبار مکہ للازرقی ، 1 / 54)  برق کا مطلب ہے بجلی اِسے بجلی کی مانند تیز رفتار ہونے کی وجہ سے بُراق کہا جاتا ہے۔ حدیثِ پاک میں آتا ہے کہ یہ جانور گدھے سے قدرے بُلند اور خچّر سے قدرے چھوٹا ہے (یعنی درمیانہ قد ہے) اور جہاں اس کی نظر کی انتہاء ہے وہاں اس کا قدم پڑتا ہے۔ (مسلم ، ص87 ، حدیث : 411)گھوڑےسرکارِ مدینہ  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو گھوڑے پسند  تھے ، آپ  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی سواری بننے کا شرف حاصل کرنے والے گھوڑوں کا مختصر ذکر کیا جاتاہے : (1)سَکْب : یہ پہلا گھوڑا تھا جو آپ  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی ملکیت میں آیا۔ آپ نے اسے بنو فَزارہ کے ایک شخص سے  دس اَوْقِیہ میں خریدا تھا اور غزوۂ اُحُد میں آپ  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اسی پر سوار ہوکر شرکت فرمائی تھی۔ (2)سَبْحَہ : امام ابنِ سیرین  علیہ رحمۃ اللہ المُبِین  فرماتے ہیں : یہ گھوڑی آپ  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ایک اَعْرابی سے خریدی تھی۔ اس گھوڑی پر آپ  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے دوڑمیں مقابلہ کیا اور یہ دوڑ میں آگے نکل گئی جس پر آپ  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  بہت مَسْرور ہوئے۔ (3) لِزَازْ : یہ گھوڑا آپ کو مُقَوْقِس (والیِ مصر) نے تحفہ میں دیا تھا۔ آپ  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  اسے اس کی سیاہ رنگت کی وجہ سے پسند فرماتے تھے۔ آپ اکثر اِسی پر سوار ہوکر غزوات میں تشریف لے جاتے۔ (4)بَحْرْ : یہ گھوڑا آپ  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے یمن سے آئے ہوئے تاجروں سے خریدا تھا۔ آپ  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے اس گھوڑے پر سوار ہوکر بارہا گُھڑدوڑ میں سَبْقت کی۔ (یعنی سب سے آگے رہے) (5)المُرْتَجِزْ : یہ وہی گھوڑا ہے جس کے بارے میں آپ  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے حضرتِ خُزیمہ کی شہادت (گواہی) کو دو مردوں کی گواہی کے برابرقرار دیا تھا (6)ظَرِبْ : یہ گھوڑا حضرتِ سیّدُنافروہ بن عمرو جذامی  رضی اللہ تعالٰی عنہ  نے آپ کو تحفہ دیا تھا(7)لُحَیْفْ : یہ آپ کو عامر بن مالِك عامِری نے تحفہ دیا تھا (8)وَرْدْ : یہ آپ کو تمیم داری  رضی اللہ تعالٰی عنہ نے تحفہ دیا تھا (9) مِرْوَاح : حضرت سیّدُنا مرداس بن مؤیلک بن واقد  رضی اللہ تعالٰی عنہ  وفد کی صورت میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو یہ گھوڑا تحفہ میں پیش کیا۔ کتب ِ سیرت میں آپ  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے مزید ان  گھوڑوں کے نام بھی ذکر کئے گئے  ہیں : (10)یَعْبُوْب (11)ذواللِمّہ (12)ذُوالْعُقّال (13)سِرحَان (14)طِرْف (15)مِرْتَجَل (16)سِجْل (17)مُلاوِح (18)مَنْدُوْب (19)نَجِیْب (20)یَعْسُوْب۔ (زرقانی علی المواہب ، 5 / 97 تا 105 ، سبل الھدیٰ والرّشاد فی سیرت خیر العباد ، 7 / 414تا419 ، مدارج النبوۃ ، 3 / 624تا628 ، السیرۃ النبویہ لابن کثیر ، 4 / 713) خچرحضور نبیِّ کریم  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی ملکیت میں درج ذیل6 خچّر تھے : (1)دُلْدُلْ : یہ سیاہی مائل سفید رنگ کا خچّر مُقَوْقِس (والی مصر) نے آپ کی بارگاہِ عالیہ میں تحفۃً پیش کیا تھا۔ آپ  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  سفر میں اس پر سوار ہوئے ، آپ  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے بعد حضرتِ سیّدُنا علی  رضی اللہ تعالٰی عنہ   اس پر سواری کرتے رہے اس کے بعد حضرتِ سیّدُنا امام حسن مجتبیٰ  رضی اللہ تعالٰی عنہ  کو ملا۔ (2)فِضّہ : یہ فروہ بن عمرو جذامی   رضی اللہ تعالٰی عنہ  نے آپ کو پیش کیا تھا۔ (3)وہ خچر جو ایلہ کے بادشاہ ابنُ العَلماء نے آپ کو تحفہ میں دیا ، یہ سفید رنگ کا تھا ، اسے بھی آپ  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی سواری بننے کا شرف حاصل ہوا۔ (4)وہ خچر جو شاہ ِحَبش نَجاشی نے آپ  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو تحفۃً پیش کیا۔ (5)وہ خچر جو دُومۃُ الجندل کے بادشاہ اٌکَیدر بن عبد الملک نے آپ کو تحفہ میں بھیجا۔ (6)وہ خچر جو شاہِ کسریٰ نے آپ کی بارگاہ میں تحفۃً پیش کیا۔ (زرقانی علی المواہب ، 5 / 106 ، مدارج النبوۃ ، 3 / 630 ، سبل الھدیٰ والرشاد ، 7 / 422) دراز گوش دراز گوش یعنی گدھا انبیا اور رسولوں کی سواری ہے اور سرکار  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی ملکیت میں بھی دو دراز گوش تھے ، (1)عُفَیْرْ جو کہ مٌقَوْقِس نے آپ  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کوتحفہ میں بھیجا تھااور دوسرے کا نام (2)یَعْفُوْرْ تھا۔ عاشقِ رسول دراز گوش یعفور نامی دراز گوش آپ  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو خیبر میں ملا تھا۔ اس نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی : یا رسول اللہ! میرا نام یزید بن شِہاب ہے اور میرے باپ داداؤں میں ساٹھ ایسے گدھے گزرے ہیں جن پر نبیوں نے سواری فرمائی ہے۔ آپ بھی اللہ کے نبی ہیں لہٰذا میری تمنّا ہے کہ آپ کے بعد دوسرا کوئی میری پُشْت پر نہ بیٹھے۔ یعفور کی یہ تمنا اس طرح پوری ہوئی کہ وفات ِاقدس کے بعد یعفور شدّتِ غم سے نڈھال ہو کر ایک کنوئیں میں گر پڑا اور فوراً ہی موت سے ہمکنار ہو گیا۔ یہ بھی روایت ہے کہ سرکار  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  یعفور کو بھیجا کرتے تھے کہ فلاں صَحابی کو بلا کر لاؤ تو یہ جاتا تھا اور صَحابی کے دروازہ کو اپنے سَر سے کھٹکھٹاتا تھا تو وہ صَحابی یعفور کو دیکھ کر سمجھ جاتے کہ حضور  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے مجھے بلایا ہے چنانچہ وہ فوراً ہی یعفور کے ساتھ دربارِ نبوی میں حاضِر ہوجایا کرتے تھے۔ (الشفا ، 1 / 314 تفسیر روح البیان ، پ14 ، النحل ، تحت الاٰیۃ : 8 ، 5 / 11 ، زرقانی علی المواہب5 / 108) اونٹ(1)مُکْتَسَبْ :  یہ ابو جہل کا اونٹ تھا جو غزوۂ بدر میں آپ  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو بطورِ غنیمت ملا۔ آپ اس پر جہاد کے لئے تشریف لے جاتے تھے۔ اس کے علاوہ آپ  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  میدانِ عَرَفات میں سُرْخ اونٹ پر جلوہ افروز ہوئے۔ (سیرتِ محمدیہ ، 2 / 393 ، زرقانی علی المواہب ، 5 / 111 ، سبل الھدیٰ والرّشاد ، 7 / 429)  اونٹنیاں(1)قَصْویٰ : جسے حضرتِ سیّدُنا صدیقِ اکبر  رضی اللہ تعالٰی عنہ  نے چار سو درھم کے بدلے خریدا تھا۔ یہ آپ  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے پاس ہی رہی۔ اسی پر آپ  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے مکّۂ معظّمہ سے مدینۂ منورہ ہجرت فرمائی ۔ (2)عَضْبَاء : جس کے بارے میں روایت ہے کہ یہ کبھی دوڑ میں کسی اونٹ سے پیچھے نہیں رہی تھی۔ ایک مرتبہ ایک اَعْرابی کے اُونٹ سے دوڑ میں پیچھے رہ گئی ، جس پر مسلمانوں کو بہت افسوس ہوا۔ آپ  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے مسلمانوں کا یہ حال جان لیا اور  ارشاد فرمایا : اللہ پر یہ حق ہے کہ دنیا میں جو چیز بھی بُلند ہواسے پَست کردے۔ (بخاری ، 2 / 274 ، حدیث : 2872) عَضْباء نے آپ کی وفات کے بعد غم میں نہ کچھ کھایا ، نہ پیا اور وفات پا گئی۔ بعض روایات کے مطابق قیامت کے دن اسی اونٹنی پر سوار ہو کر حضرت بی بی فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا میدانِ محشر میں تشریف لائیں گی (3)جَدْعَا : اس پر سوار ہو کر آپ  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے حجۃُ الوداع کا خطبہ ارشاد فرمایا  تھا۔ (4)صَھْبَاء : حجۃُ الوداع کے دن آپ  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے اس اونٹنی پر سوار ہوکر رَمِی فرمائی تھی یعنی مِنیٰ کے مقام پر شیطان کو کنکریاں ماری تھیں۔ (تفسیرِ روح البیان ، پ14 ، النحل ، تحت الاٰیۃ : 7 ، 5 / 8 ، الانوار فی شمائل النبی المختار1 / 604 ، سبل الھدیٰ والرّشاد ، 7 / 428 ، زرقانی علی المواہب ، 5 / 110) اس کے علاوہ علمائےکرام نے آپ  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی مزید ان اونٹنیوں کے نام ذِکْر فرمائے ہیں : (5)مہرا (6)اَطْلَال (7)اَطراف (8)بردہ (9)بُغُوم (10)برکہ (11)حَنَّاء (12)زمزم (13)رَیَّا (14)سَعْدِیہ (15)سُقْیا (16)سَمرا (17)شَقرا (18)عَجرہ (19)عُرَیْس (20)غَوثہ (21)قَمریہ(22)مروہ(23)مُہرہ (24)وُرشہ (25)یَسییریہ۔ (زرقانی علی المواہب ، 5 / 111)


Share