چہرے کا نور

حُسن و جمالِ مصطفٰے حُضُور سرورِ کونین صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ذات حُسن و کمال کا سَرچشمہ ہے۔ کائنات کے حُسن کا ہر ہر ذرّہ دہلیزِ مصطفےٰ کا ادنیٰ سا بھکاری ہے۔ زمانے کی تمام چمک دمک آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہی کے دم قدم سے ہے۔ رَبِِّ کریم نے آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو وہ جمالِ بے مثال عطا فرمایا کہ اگر اُس کا ظہورِ کامل ہو جاتا تو اِنسانی آنکھ اُس کے جلووں کی تاب نہ لا سکتی۔([1])

اک جھلک دیکھنے کی تاب نہیں عالَم کو

وہ اگر جلوہ کریں کون تماشائی ہو

                                                    (ذوق نعت،ص204)

قراٰن کریم میں ذِکْرِ حُسنِ مصطفٰے ربّ تعالیٰ نے اپنے محبوب کے حسن و جمال کو نہایت ہی خوبصورت اَنداز میں کبھی سِرَاجًا مُّنِیْرًا (چمکتا چراغ) سے تعبیر فرمایاکیونکہ جس طرح چراغ سے مکان کی تاریکی دور ہوتی ہے اسی طرح آپ کے وجودِ مسعودسے کُفْر و شِرْک کی تاریکی دور ہوئی اور تمام عالَم نورِ ایمان سے منوّر ہوگیا، ہاں جس طرح جس گھر میں چراغ ہو اس میں چور نہیں آتااسی طرح جس دل میں ان کی مَحبت کا چراغ روشن ہو شیطان اس کے ایمان کو چُرانے کے لئے نہیں آتااورجس طرح چراغ گھرکے اندھیرے کو دور کرتا ہے اسی طرح یہ چراغ دل کے اندھیرے کو دور کرتاہے۔ جی ہاں! جس گھر میں چراغ ہو وہاں بیٹھنے والےکا دل نہیں گھبراتا اور جس دل میں اس چراغ کی یادہو رَنْج و اَلَم اس کے پاس بھی نہیں پھٹکتا۔اور اگر سِرَاجًا مُّنِیْرًا سے مراد چمکادینے والا آفتاب ہو تومعنی یہ ہوگاکہ جس طرح سورج کا نور سارے عالَم میں پھیلا ہوا ہے اسی طرح ساراجہان آپ کے نور سے منوّر ہے اور جس طرح سورج چمک دمک میں بقیہ ستاروں سے ممتاز ہے اسی طرح آپ بھی فضائل و کمالات میں بقیّہ انبیا سے ممتاز ہیں۔ ([2])اورکبھی رب تعالیٰ نے   طٰہٰ  کا لقب دے کر آپ کو چودھویں کا چاند فرمایا، جی ہاں ’’ط‘‘ کے عدد نو ہیں اور” ہ“ کے عدد پانچ ہیں یعنی رب فرماتا ہے: اے چودھویں، کے چاند! ([3]) اور ربِّ کریم وعظیم نے ”  وَ النَّجْمِ ‘‘ سے جہاں آپ کو چمکتے تارے‘‘ کے لقب سے نوازا، ([4]) تو وہیں ’’  وَ الضُّحٰى فرما کر آپ کے رخِ انور کے حُسن کا چرچا فرمایا۔ ([5]) جہاں تک بات رہی ان پاک ہستیوں کی جوصبح وشام اس سراجِ مُنیر“ اور ”  طٰہٰ  “ کے دیدار سے مشرف ہوتے تھے، انہوں نے اپنے جذبات و احساسات واِدراکات کے مُطابِق ان کے حُسن کو بیان کیا، اور حقیقت تو یہ ہے کہ ان کے حُسن کو کوئی بیان کرہی نہیں سکتا۔

کسی جا ہے طٰہٰ و  یٰسٓکہیں پر

لقب ہے سراجا منیرا تمہارا

                                            (قبالۂ بخشش،ص18)

چاند سے بڑھ کر حسین اگرحضرتِ اَنَسرضي الله تعالى عنه نے یہ کہہ کر حُسنِ مصطفےٰ کو بیان کیا کہ ’’آپ کارنگ كمال روشن تها،گوىا آپ کا پسىنہ موتى ہے۔‘‘ ([6]) تو حضرتِ جابربن عبداللہ رضي الله تعالى عنه بھی بار بار آسمان کے چانداور مدینے کے چاند کو دیکھنے کےبعد اس نتیجہ پر پہنچے کہ آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم مجھے چاند سے زىادہ حسین معلوم ہوتے تھے۔([7])

حُسن تجھ سا کہیں دیکھا نہ سنا حضرتِ سیّدنا ابوہریرہ رضي الله تعالى عنه مدحتِ مصطفےٰ میں کچھ یوں بولے: مىں نے کوئى شے نبیِّ مکرّم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے زىادہ خوبصورت نہ دىکھى، گوىا آفتاب ان کے چہرے مىں رواں ہے([8]) اور فرمایا: جب آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم مسکراتے دىوارىں روشن ہو جاتىں اور دانتوں کا نور دھوپ کی کرنوں کی طرح ان پر پڑتا۔([9])

بعض صَحابۂ کرام رضي الله تعالى عنهم نے یہاں تک فرمایا: خوشى کے وَقْت چہرۂ مُبارَک اس قدر چمکتا کہ دىواروں کا عکس اس مىں نظر آتا۔([10]) حضرتِ سیّدُنا کَعْب بن مالک رضي الله تعالى عنه نے رُخِ مصطفےٰ کا نقشہ یوں کھینچا کہ جب آپ خوش ہوتے توایسےمعلوم ہوتا گویا آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا رخِ انور چاند کا ٹکڑا ہے۔([11])

 کسى نے جب حضرت سیّدنا بَرَاء بن عازب رضي الله تعالى عنه سے پوچھا: کىا آپ کا چہرۂ مبارکہ تلوار کى مانند چمکتا تھا؟ فرماىا: نہىں! بلکہ چاند کى طرح چمکتا تھا۔([12])

حضرتِ سیّدَتُنا عائِشہ صدّیقہ رضي الله تعالى عنها کے ہاتھ سے  جب سوئی گرجاتی ہے اور ہر چند تلاش کے باوجود نہیں مل سکتی تو حضور ماہ ِمدینہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے تشریف لاتے ہی رُخِ انورکی روشنی سے سارا کمرہ روشن ہو جاتا ہے اور سُوئی چمکنے لگ جاتی ہے۔([13])

سُوزنِ گم شدہ ملتی ہے تَبَسُّم سے تِرے

شام کو صبح بناتا ہے اجالا تیرا

                                                                (ذوقِ نعت،ص25)

آنکھ بھر کر نہ دیکھ سکے آئیے حضرتِ سیّدَتُنا حلیمہ رضي الله تعالى عنها سے پہلی زیارت کے تاثرات بھی ملاحظہ کیجئے، فرماتی ہیں:حضور سیّدعالَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ان کے حُسن و  جمال کی وجہ سے میں نے جگانا مناسب نہ سمجھا، میں آہستہ سے ان کے قریب ہو گئی اور اپنا ہاتھ ان کے سینہ مُبَارَک پر رکھا تو آپ مسکرا تے ہوئے میری طرف دیکھنے لگے۔ حضورِ انور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی آنکھوں سےایک نور نکلا جو آسمان کی بلندیوں میں پھیل گیا۔([14])

حقیقت توحضرتِ عَمْرو بن عاص رضي الله تعالى عنه بیان فرماتے ہیں،چنانچِہ فرمایا: میرے نزدیک رسول اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے بڑھ کر کوئی حسین تَر نہیں تھا، میں حُضُورِ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مقدّس چہرہ کو اُس کے جلال و جمال کی وجہ سے جی بھر کر دیکھنے کی تاب نہ رکھتا تھا، اگر کوئی مجھے آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے محامدومحاسن بیان کرنے کے لئے کہتا تو میں کیونکر ایسا کرسکتا تھا کیونکہ آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو آنکھ بھرکر دیکھنا میرے لئے ممکن نہ تھا۔ ([15])

کسے ہے دیدِ جمالِ خدا پسند کی تاب

وہ پورے جلوے کہاں آشکار کرتے ہیں

                                                                     (ذوقِ نعت،ص197)

نُبُوّت پر دلیل حضرتِ سیّدنا عبد الله بن رَوَاحہ رضي الله تعالى عنه نے فرمایا: اگر آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ذاتِ مُبارَکہ میں روشن نشانیاں (دیگرمعجزات) نہ بھی ہوتیں تو آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا چہرۂ انور ہی آپ کے نبی ہونے کی خبردے دیتا۔([16])

حضرتِ سیّدَتُنا عائشہ صدّىقہ رضي الله تعالى عنها فرماتى ہىں: آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا حُسن عالَم سے نرالا اور رنگِ بدن نہاىت روشن تھا، جو آپ کا وصف بیان کرتا وہ چودھوىں رات کے چاند سے تشبىہ دىتا اور آپ کا پسىنہ مبارک چمک اور صفائى مىں موتی کے مانند تھا۔([17])

آئیے حضرتِ سیّدُنا ابنِ عباس رضي الله تعالى عنہما کاارشاد پڑھیئے اور حُبِِّ مصطفےٰ سے اپنے دل کومنوّرکیجیے، چنانچہ فرماتے ہیں:حضورِ انور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا سایہ نہ تھا آپ سورج کی روشنی میں کھڑے ہوتےتو آپ کے جسمِ انورکی روشنی سورج کی روشنی پر غالِب آجاتی اور اگر آپ چراغ کے پاس کھڑے ہوتے تو آپ کے جسمِ انورکی روشنی چراغ کی روشنی پر غالب آجاتی تھی۔([18])

سرورِ کائنات، شاہِ موجودات  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مبارک و بے مثال حسن و جمال کے بارے میں کہاں تک لکھا جائے!  اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہلکھتے ہیں:

لیکن رضاؔ نے ختمِ سُخن اس  پہ کردیا

خالِق کا بندہ خَلْق کا آقا کہوں تجھے

                                                                               (حدائقِ بخشش،ص175)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭…مدرس جامعۃالمدینہ ،مدینۃالاولیاء ملتان



[1] ۔۔۔ سبل الہدی والرشاد،ج2،ص8ماخوذاً

[2] ۔۔۔ الکلام الاوضح، ص125، ماخوذاً

[3] ۔۔۔ ایضاً، ص126

[4] ۔۔۔ نورالعرفان، ص839

[5] ۔۔۔ الکلام الاوضح، ص126 ماخوذاً

[6] ۔۔۔ مسلم، ص978، حدیث:6054 ماخوذاً

[7] ۔۔۔ ترمذی،ج 4،ص370، حدیث:2820

[8] ۔۔۔ ترمذی،ج5،ص369، حدیث:3668

[9] ۔۔۔ جامع معمر بن راشد ملحق بمصنف عبدالرزاق،ج 11،ص259، رقم:20490

[10] ۔۔۔ الکلام الاوضح، ص123

[11] ۔۔۔ بخاری،ج2،ص488، حدیث:3556 ماخوذاً

[12] ۔۔۔ ایضاً،حدیث:3552

[13] ۔۔۔ القول البدیع، ص302

[14] ۔۔۔ سيرت حلبیہ،ج1،ص132

[15] ۔۔۔ مسلم،ص71،حدیث:321 ملخصاً

[16] ۔۔۔ سبل الہدی والرشاد،ج1،ص531 ماخوذاً

[17] ۔۔۔ دلائل النبوۃ ، ص360، رقم:554

[18] ۔۔۔ سبل الہدی والرشاد،ج2،ص40


Share