انوکھا بدلہ

جب سورۂ ”نَصْر“نازل ہوئی تومکّی مَدَنی مصطفےٰصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے ارشاد فرمایا:اےجبریل! میرے وصال کااعلان ہوچکا۔ جبریلِ امین نےعرض کی:آنےوالاپَل آپ کےلئےگزرےہوئےسےبہترہےاورعنقریب آپ کو آپ کا ربّ اتنا دے گا کہ آپ راضی ہو جائیں گے۔ محبوبِِ خدا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے حضرتِ بلال حبشی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اَذان دینے کا حکم دیا، چنانچِہ انصار ومہاجرین مسجدِ نَبوِی میں جَمْع ہو گئے، آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے انہیں نماز پڑھائی پھر منبر پر جلوہ فرما ہوئے اوراللہکریمکی حمد و ثنا کے بعد ایک ایسا خُطبہ دیا جس سے دل کانپ اٹھے اور آنکھوں سے اشک رواں ہو گئے، ارشاد فرمایا:اے لوگو! میں تمہارے لئے کیسا نبی ہوں؟ عرض کی گئی: اللہ پاکآپ کو جزائے خیر عطا فرمائے آپ اچّھے نبی ہیں، باپ کی طرح مہربان، ناصِح بھائی کی طرح شفیق، آپ نے پیغاماتِ خداوندی  کا حق ادا کیا اور اس کی وحی ہم تک پہنچا دی،  آپ نے ہمیں حکمت اور اچّھی نصیحت کے ذریعےاپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دی، اللہآپ کو اس سے بھی افضل جزا عطافرمائے جو کسی اُمّت کی طرف سے اللہ نےاس اُمّت کے نبی کو دی ہو۔ آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اے گروہِ مسلمین! میں تمہیں  اللہکی قسم اور تم پر اپنےحق کا واسِطہ دے کر کہتا ہوں: میری طرف سے کسی پر کوئی ظلم  ہو گیا ہو تو کھڑا ہو جائے اور قِیامت میں بدلہ لینے کے بجائے مجھ سے یہیں بدلہ لے لے۔ ایک بھی کھڑا نہ ہوا، آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے دوبارہ یہی قسم دی پھر بھی کوئی کھڑا نہ ہوا توتیسری بار قسم دیتے ہوئےاس بات کو دہرایاکہ میری طرف سے کسی پر کوئی ظلم ہوگیا ہو تو کھڑا ہوجائے اور قِیامت میں بدلہ لینے کے بجائے  مجھ سےیہیں بدلہ لے لے۔ چنانچہ عُکَاشَہ نامی ایک ضعیفُ العُمرصَحابی کھڑے ہوئے اور لوگوں کو ہٹاتے ہوئے آقا کریمعلیہ السَّلامکے سامنے جا پہنچے اور عرض کی: میرے ماں باپ آپ پر قربان! اگر آپ نے باربار قسم نہ دی ہوتی تو میری مجال ہی نہیں تھی کہ میں کسی چیز کے بدلے کے لئے آپ کے سامنےآتا۔ میں آپ کے ساتھ ایک غزوہ میں تھا اس میں اللہ کریم نے  اپنے نبی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مدد کی اور ہمیں فتح عطا فرمائی۔ جب ہم واپس آرہے تھے تو میری اونٹنی آپ کی اونٹنی کے برابر آگئی، میں اپنی اونٹنی سے اُتر کر آپ کے قریب ہوا تاکہ آپ کےقدم مُبارَک پر بوسہ دوں، مگر آپ نےچھڑی بُلند کی اور میرے پہلو پر ماری، میں نہیں جانتا کہ آپ نے ایسا جان بوجھ کر کیا یا آپ کا ارادہ اونٹنی کو مارنے کا تھا؟ آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے ارشاد فرمایا: میں تمہیں اللہ پاک کے جلال سے پناہ میں لیتا ہوں کہ اللہکا رسول تمہیں جان بوجھ کر مارے، پھر فرمایا: اے بلال! فاطمہ کے گھر جاؤ اور وہی پتلی چھڑی لے آؤ۔ چنانچہ  حضرت سیِّدُنا بلال رضی اللہ تعالٰی عنہاپنے ہاتھ سَر پر رکھے مسجِد سے نکلے اور یہ کہتے جاتے:یہ اللہکے رسول ہیں جو خود اپنا قصاص دے رہے ہیں۔  حضرت سیّدَتُنا فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالٰی عنہا کے گھر پہنچ کر دروازہ کھٹکھٹایا اور کہا: اے رسولُاللہکی صاحبزادی! مجھے وہ پتلی چھڑی دے دیجئے۔ شہزادیِ کونین رضی اللہ تعالٰی عنہا نے فرمایا: بلال! نہ ہی آج یومِ عرفہ ہے اور نہ ہی کوئی غزوہ! پھر میرے باباجان چھڑی کا کیا کریں  گے؟عرض کی: کیا آپ کو معلوم نہیں آج آپ کے باباجان کیاکر رہے رہیں! بے شک حُضُور نبیِّ رَحْمت صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے دین پہنچا دیا ہے، دنیا کو چھوڑ رہے ہیں اور آج اپنی طرف سے بدلہ دے رہے ہیں۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے بےقرار ہو کر فرمایا: اے بلال! آخِر ایسا کون ہے جس نے رسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمسے بدلہ لینا گوارا کر لیا؟  اے بلال! اگر یہ بات ہے تو حسن اورحسین کو  کہو اس شخص کے سامنے کھڑے ہو جائیں اور وہ ان سے بدلہ لے لے۔ حضرتِ بلال مسجِد پہنچے اور وہ چھڑی حضورِ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکو پیش کر دی، آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے  بلال سے لے کر عُکَاشَہ کے حوالے کر دی، یہ دیکھ  کر حضرتِ سیِّدُنا ابوبکر وعمر رضی اللہ تعالٰی عنہماآگے بڑھے اور کہا: اے عُکَاشَہ! لَو ہم تمہارے سامنے ہیں جو بدلہ لینا ہے ہم سے لے لومگر پیارے آقاسے بدلہ نہ لو۔ نبیِّ پاک صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے ارشاد فرمایا: اے ابوبکر! ہٹ جاؤ، اے عُمَر! تم بھی ہٹ جاؤ یقیناً اللہ پاک تم دونوں کے مقام ومرتبے کو  خوب جانتا ہے۔ اتنے میں حضرتِ سیِّدُنا علیُّ المرتضیٰکَرَّمَ اللہ تعالٰی وجہَہُ الکریم کھڑے ہوئے اور کہنے لگے: اے عکاشہ! میرے سامنے میری زندَگی میں تم کریم آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکو یہ چھڑی مارو مجھے یہ ہرگز برداشت نہیں، یہ رہی میری پیٹھ اور یہ رہا میرا پیٹ  اپنے ہاتھ سے مجھے سو کوڑے مارلو اور مجھ سے انتِقام لے لو لیکن پیارے آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے بدلہ نہ لینا،حُضورِ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اےعلی! اپنی جگہ بیٹھ جاؤ بے شک اللہکریمتمہارے مرتبے اور نیّت کو خوب جانتا ہے۔  اتنے میں نوجوانانِ جنّت کے سردار، فاطمہ زہرا کے گلشن کے پھول حضرتِ سیِّدُناامام حسن و امام حسینرضی اللہ تعالٰی عنہما کھڑے ہوئے اور کہا: عکاشہ!کیاآپ نہیں جانتے ہم رسول ُاللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکےنواسے ہیں اورہم سے بدلہ لینا گویا آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سےبدلہ لینا ہےلہٰذا آپ ہم سےبدلہ لے لیں۔پیارےآقاصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمنےارشاد فرمایا: اے میری آنکھوں کی ٹھنڈک! بیٹھ جاؤ بے شک اللہپاکتمہارے  مقام کو خوب جانتا ہے۔ پھرعکاشہ سے فرمایا: اے عکاشہ! اگر تم چھڑی مارنا چاہتے ہو تو مارو۔حضرتِ عکاشہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عرض کی: جس وقت آپ نے مجھے مارا تھا  اس وقت میرے پیٹ پر کپڑا نہیں تھا۔چنانچِہ آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے اپنے مُبارَک پیٹ سے کپڑا ہٹا دیا، یہ دیکھ کر مسلمانوں کی چیخیں نکل گئیں اور کہنے لگے: عکاشہ کو دیکھتے ہو یہ رسول ُاللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکے مُبارَک پیٹ پر چھڑی مارے گا؟ جب حضرتِ عکاشہ نے مبارک پیٹ کی سفیدی کو دیکھا  تو فوراً حضورِ انور  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  سے چمٹ گئے اور پیٹ مبارک کا بوسہ  لیتے ہوئے عرض گزار ہوئے: میرے ماں باپ آپ پر قربان! بھلا کون ہے جو آپ سے بدلہ لینے کا سوچ سکے۔آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے ارشاد فرمایا: چاہو تو بدلہ لے لو ، چاہو تو معاف کردو۔حضرتِ سیِّدُناعکاشہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنےعرض کی: میں نےآپ کومعاف کیایہ اُمّیدکرتے ہوئے کہاللہ کریم بَروزِقِیامت مجھےمعاف فرمائےگا۔رسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمنےارشادفرمایا:جوشخص  میرے جنّت کے رفیق کو دیکھنا چاہے وہ اس بوڑھے کو دیکھ لے۔ لوگ کھڑے ہوئے اور حضرتِ سیِّدُنا عکاشہرضی اللہ تعالٰی عنہکی پیشانی چوم کر یہ کہتے جاتے: تمہیں مبُارَک ہو! تمہیں مبارک ہو! تم  توبُلند دَرَجات اورحضورنبیِّ اکرمصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکی ہم نشینی کے شرف کوپہنچ گئے۔(حلیۃ الاولیاء,،ج4،ص67)

   اللہ کریم ہمیں اپنے اور اپنے بندوں کے حقوق بھی پورے کرنے اور جن کی حق تلفیاں کی ہیں ان سے مُعافی مانگنے کی توفیق عطا فرمائے۔ پیارے آقاصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سچّی مَحبت اور آخِرت میں ان کا پڑوس نصیب فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭   شعبہ تراجم ،المدینۃالعلمیہ ،باب المدینہ کراچی


Share

انوکھا بدلہ

کسبِ حلال کے لئے جدّو جہد کرنا اَنبیائے کِرامعَلَیْہِمُ السَّلَام کا طریقہ رہا ہے،ان  پاکیزہ ہَستیوں میں سے کوئی کپڑے سینے کا کام کرتے تھے تو کوئی کھیتی باڑی کرکے  توکوئی  لکڑی کا کام کرکے رزقِ حلال طلب کیا کرتے۔ہمارے پیارے آقا مدینے والے مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بھی کسبِ حلال کے لئے کوشش فرمائی،آپ نے اُجرت پر گلّہ بانی کی، تجارت بھی فرمائی اور اس کیلئے  ملکِ شام اور یمن وغیرہ کا سفر اختِیار فرمایا۔ آپ نے دورانِ تجارت لڑائی جھگڑے سے پرہیز کیا،وعدے کی پاسداری کی اور  صَبْر،حِلْم، عَفْو ودَرگُزر اور دیانتدادی کا مُظاہَرہ کیا۔ آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم تجارتی اَسفار میں اپنے اَخلاقِ کریمانہ  حُسْنِ مُعَامَلہ اور صِدْق و دِیانت کی وجہ سے ”صادِق و اَمین  کے لقب سے  مشہور ہو چکے تھے ۔کفّارِ مکّہ اگرچہ  آپ کےبدترین دشمن تھے مگر اس کے باوجود آپ کی اَمانت و دِیانت پر ان کو اس قدر اِعتماد تھا کہ وہ اپنے قیمتی مال و سامان کوآپ کے پاس بطور امانت رکھواتے تھے۔ اَلْغَرَض ایک تاجر کے اندر جو  خُوبیاں ہونی چاہئیں وہ سب ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ذاتِ بابرکات میں کامل طور پر موجود تھیں۔ تجارت کیلئے یمن کی طرف سفرسرکارِمدینہصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا خاندانی پیشہ تجارت تھا اور چونکہ آپ بچپن میں اپنے چچا ابوطالب کے ساتھ کئی بار تجارتی سفر فرما چکے تھے جس سے آپ کو تجارتی لین دین کا کافی تجربہ حاصل ہو چکا تھا۔ اس لئے ذریعۂ معاش کے لئے آپ نے تجارت کا  پیشہ اختِیار فرمایا اور تجارت کی غرض سے مختلف مقامات پر سفر کئے۔ آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےجو تجارتی سفرحضرتِ خدیجہرَضِیَ اللہُ تَعَالیٰ عَنْہَا کے لئے کئے، ان میں سے دو سفر یمن کی جانب بھی تھے، چنانچہ روایت میں ہے: حضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالیٰ عَنْہَا نے نبِیّ کریم  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو جُرَش (یمن میں ایک مقام) کی طرف دوبار تجارت کیلئے  بھیجا اور ان میں سے ہر سفر ایک اونٹنی کے عوض تھا۔(مستدرک ،ج 4،ص178، حدیث:4887) تجارت کیلئے بحرین کی طرف سفرآپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کااعلانِ نبوت سے پہلے تجارت کیلئے بحرین کی طرف سفر کرنے کا بھی ذکر ملتا ہے،چنانچہ آپ  کی خدمت میں عرب کے دور دراز مقامات سے وفود (Delegations) حاضِر ہوتے تھے، ان ہی وفود میں بحرین سے وفدِ عبد ُالقَیس بھی آیا، آپ نے اہلِ وفد سے بحرین کے شہروں کے نام لے کروہاں کے احوال دریافت فرمائےتو انہوں نے تعجب سے پوچھا:یارسول اللہ! ہمارے  ماں باپ آپ پر قربان!آپ تو ہم سے بھی زیادہ ہمارے شہروں کے نام جانتے ہیں!آپ نے ارشاد فرمایا:میں تمہارے شہروں میں ٹھہرا ہوں اور میرے لئے ان شہروں میں کشادگی کردی گئی تھی۔ (مسند احمد،ج 5،ص296، حدیث: 15559 ملتقطا) تجارت کی غلطیوں کی اصلاح میں رسولُ اللہ کا کردارجیسے ہمارے زمانے میں  تجارت کے شعبے میں مختلف بُرائیاں مثلا دھوکا دہی،عیب والی چیز بیچنا،ملاوٹ کرنا،غلے کی ذخیرہ اندوزی وغیرہ  پائی جاتی ہیں، زمانۂِ جاہلیت میں بھی یہ خرابیاں عام تھیں،ہمارے پیارےآقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے جہاں زندگی کے دیگر شعبوں کی خامیوں   کودرست کیا وہیں اس شعبے میں پائی  جانے والی  غلطیوں کی بھی اصلاح  فرمائی،چنانچہ اس کی 3 مثالیں ملاحظہ کیجئے: (1)دھوکا دہی کی مذمت میں ارشاد فرمایا: جس نے ہمارے ساتھ دھوکا کیا وہ ہم سے نہیں۔(مسلم،ص64،حدیث: 283) (2)عیب والی چیز بیچنے کے متعلّق ارشاد فرمایا:جس نے عیب والی چیز بیچی  اور اس کا عیب ظاہر نہ کیا وہ ہمیشہ اللہ پاک کی  ناراضی  میں ہےاور ہمیشہ فرشتے اس پر لعنت کرتے ہیں۔ (ابن ماجہ،ج3،ص59،حدیث2247) (3)غلّے کی ذخیرہ اندوزی کے بارے میں ارشاد فرمایا:جس نے مسلمان پر غلّہ روک دیا، اﷲ پاک اُسے جذام (کوڑھ) اور افلاس میں مبتلا فرمائے گا۔(شعب الایمان،ج7،ص526، حدیث 11218) خرید و فروخت میں نرمی کا مُظاہَرہ ہمارے پیارے آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم بہت ہی بُلند اخلاق،نرم خُو اور رحیم و کریم تھے ، زید بن سَعْنَہ  ایک یہودی عالم تھے،انہوں نے جب آپ کے ساتھ خرید و فروخت میں سَختی کا معاملہ کیا تو آپ نے حلم سے کام لیتے ہوئے ان کے ساتھ نرمی کا مظاہرہ فرمایا، واقعہ کچھ یوں ہے کہ زید بن سَعْنَہ نےقبولِ اسلام سے پہلے حُضورِ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے کھجوریں خریدی تھیں۔کھجوریں دینے کی مدّت میں ابھی ایک دو دن باقی تھے کہ انہوں نے بھرے مجمع میں آپ سے انتہائی سختی کے ساتھ کھجوروں کا تقاضا کیاجس کے باعث حضرتِ عُمَر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہان پر غضبناک ہوئے، اس پر آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:اے عُمَر!تمہیں تو یہ چاہیے تھا کہ مجھ کو ادائے حقّ کی ترغیب دے کر اور اس کو نرمی کے ساتھ تقاضا کرنے کی ہدایت کرکے ہم دونوں کی مدد کرتے۔ پھر آپ نے حکم دیا کہ اے عُمَر!اس کو اس کے حق کے برابر کھجوریں دے دو اور کچھ زیادہ بھی دے دو۔ کھجوریں لینے کے بعد زید بن سَعْنَہ نے حضرت عمررضی اللہ تعالٰی عنہ کو سختی کے ساتھ تقاضا کرنے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ میں نے توریت میں نبیِّ آخرُ الزّمان کی جتنی نشانیاں پڑھی تھیں ان سب کو محمد مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ذات میں دیکھ لیا مگر دو نشانیوں کے بارے میں امتحان باقی رہ گیا تھا۔ ایک یہ کہ ان کا حِلْم جَہْل پر غالب رہے گا  اور جس قدر زیادہ ان کے ساتھ جَہْل کا برتاؤ کیا جائے گا اسی قدر ان کا حِلْم بڑھتا جائے گا۔ چنانچہ میں نے اس ترکیب سے ان دونوں نشانیوں کو بھی ان میں دیکھ لیا اور میں شہادت دیتا ہوں کہ یقیناً یہ نبیِّ برحق ہیں اور اے عُمر! میں بہت ہی مالدار آدمی ہوں، میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنا آدھا مال حُضورِ اکرم  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اُمّت پر صَدَقہ کر دیا۔ اس کے بعد آپ بارگاہ ِرسالت میں آئے اور کلمہ پڑھ کر دامنِ اسلام میں آگئے۔ (سیرت ِمصطفےٰ، ص601، ملخصاً)طے شدہ مقدار سے  زیادہ کھجوریں دیں حضرت طارِق بن عبد اللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا بیان ہے کہ ہم  مدینۂ منوّرہ آئے تو اس  کی چار دیواری (Boundary) کے قریب ایک شخص کو دیکھا جس نے دو چادریں پہنی ہوئیں تھیں، اس نے ہمیں سلام کیا اور پوچھا:کہاں کا اِرادہ ہے؟ہم نے کہا:مدینہ کا،اس نے پوچھا:اس شہر میں کس کام سے آئے ہو؟ہم نے  کہا:یہاں کی کھجوریں لینے کے لئے، ہمارے ساتھ سُواری کا اُونٹ ہے اور نکیل ڈلا ہوا ایک سُرْخ  اُونٹ بھی ہے،اس نے کہا: یہ (سُرخ)اُونٹ فروخت کرنا ہے؟ ہم نے کہا:اتنی اتنی صاع کھجور کے بدلے میں  بیچیں گے۔اس شخص نے قیمت میں کوئی کمی نہیں کروائی  اور اُونٹ کی لگام  پکڑ  کرروانہ ہوگیا ،جب وہ نگاہوں سے اَوجھل ہوا  تو ہم کہنے لگے: یہ ہم نے کیا کیا؟ہم نے ایک ناواقف شخص کو  اُونٹ دے دیا اور اس  سے قیمت بھی وُصول نہیں کی۔ ہمارے ساتھ موجود ایک خاتون نے کہا:ایک دوسرے کو ملامت نہ کرو،خدا کی قسم! ایسے چہرے والا شخص کبھی تمہیں دھوکا نہیں  دے گا، میں نے اس کا چہرہ دیکھا تھا جو چودھویں رات کے چاند کی مانند روشن تھا،تمہارے اس اُونٹ کی قیمت کی ضمانت میں دیتی ہوں،ابھی ہماری یہ گفتگو چل رہی تھی کہ اتنے میں ایک شخص آیا  اور اس نے کہا:مجھے رسول اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بھیجا ہےاوریہ تمہارے لئے کھجوریں ہیں،اس میں سے پیٹ بھر  کےکھا لو اور تول کر پوری مِقْدار میں لے بھی لو۔(یعنی آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے طے شدہ مِقْدار سے زیادہ کھجوریں عطا فرمائیں)۔ (الخصائص الکبریٰ،ج2،ص35)

اللہ پاک ہمیں سرکار صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مبارَک سیرت  سے راہنمائی لے کر سچّائی ،دیانت داری اور ایفائے عہد جیسے سنہری اصولوں پر عمل کرتےہوئے اور لڑائی جھگڑے سے بچتے ہوئے  تجارت کرنے کی توفیق عطافرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭…ماہنامہ فیضان مدینہ باب المدینہ کراچی


Share