دو طرفہ بروکری لینا کیسا؟/ بروکر کاٹاپ مارنا کیسا؟/ بروکر کا پارٹی کو مارکیٹ ویلیو سے زائد قیمت بتانا/ بروکر کا پارٹی سے چیز خرید کر آگے بیچنا کیسا؟

دو طرفہ بروکری لینا کیسا؟

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ بروکر کاخریداراور فروخت کنندہ دونوں سے بروکری لینا کیسا ہے؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب: پوچھی گئی صورت میں اگر کسی جگہ دو طرفہ بروکری لینےکا عُرف ہو تو بروکر  کا دوطرفہ بروکری لینا جائز ہے۔ البتہ بروکر کے لیے یہ ضروری ہے کہ بروکر دونوں طرف سے بھاگ دوڑ کرے اور کوشش و سعی کرے۔ دو طرفہ بروکری لینا اسی وقت جائز ہے جب سودا طے کرواتے وقت کسی ایک کی نمائندگی نہ کرے اگر کسی  ایک  کی نمائندگی کرے گا تو پھر سامنے والی پارٹی سے بروکری نہیں لے سکتا بلکہ صرف اسی سے بروکری لینے کا حقدار ہوگا جس کی اس نے نمائندگی کی ہے۔

اس کو یوں سمجھئے کہ ایک بروکر نے دو نوں پارٹیوں کو ملوانے کے لئے اپنی ذمہ داری پوری طرح ادا کی اور دونوں سے طے کیا کہ آپ دونوں مجھے اتنا کمیشن  دیں گے لیکن ہوا یہ کہ جب دونوں اصل فریقین کے بیٹھ کر سودا سائن کرنے یا زبانی طور پر سودا پکا کرنےاور ایجاب و قبول کا موقع آیا تو ایک فریق نے بروکر سے کہہ دیا کہ میں نہیں آسکوں گا میری طرف سے تم دوسری پارٹی سے  یہ ڈیل فائنل کر لو تو ایسی صورت میں چونکہ ایک فریق خود یا بروکر کے علاوہ اس کا کوئی اور نمائندہ موجود نہیں تھا بلکہ بروکر یا کمیشن ایجنٹ کو ایک فریق کی نمائندگی کرنا پڑی تو ایسی صورت میں بروکر دو طرف سے کمیشن نہیں لے سکتا صرف  اس فریق سے کمیشن وصول کرنے کا حق دار ہے جس کا نمائندہ بن کر اس نے سودا فائنل کیا۔

 اس کے بَرخلاف زیرِ بحث صورت میں اگر اصل فریق بروکر کے علاوہ کسی اور کو اپنا نمائندہ بنا کر بھیجتا یا خود آکر ڈیل فائنل کرتا تو بروکر شرعی اعتبار سے دو طرفہ بروکری یا کمیشن کا حق دار ٹھہرتا۔(ماخوذ ازتنقیح الفتاوی الحامدیہ،ج1،ص259 ،بہار شریعت،ج2،ص639مکتبہ المدینہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

بروکر کاٹاپ مارنا کیسا؟

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کہ بارے میں کہ بروکر بسا اوقات اس طرح کرتے ہیں کہ پراپرٹی کے مالک کو کم پیسے بتاتے ہیں اور خریدنے والے کو زیادہ پیسوں میں فروخت کرتے ہیں اور درمیان کے پیسے خود رکھ لیتے ہیں مثال کے طور پر ایک پراپرٹی پچاس لاکھ کی فروخت کرنے کے بعد پراپرٹی کے مالک کو کہاکہ یہ پینتالیس لاکھ کی فروخت کی ہے  بروکر کا ایسا کرنا کیسا ہے؟اسے بروکرز کی اِصْطِلاح میں  ٹاپ مارنا کہاجاتا ہے ۔

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب: پوچھی گئی صورت میں بروکر کا اس طرح کرنا دھوکا اور حرام ہے  اس کی وجہ یہ ہے کہ بروکر ایک نمائندے کی حیثیت رکھتا ہے نہ ہی اس کا مال ہے اور نہ ہی رقم۔ لہٰذا بروکر پر یہ بات لازم ہے کہ پراپرٹی جتنے کی بھی فروخت ہوئی ہے اس کی کل رقم مالک کےحوالے کرے ۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

بروکر کا پارٹی کو مارکیٹ ویلیو سے زائد قیمت بتانا

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں اپنی ایک پراپرٹی بیچ رہا ہوں جس کی مارکیٹ ویلیوتیس لاکھ روپے ہے لیکن بروکرپارٹی سے بتیس لاکھ مانگ رہا ہے کیا ایسا کرنا جائز ہے؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب: اگر بروکر پراپرٹی کے مالک کی اجازت سے کسی پارٹی سے زیادہ پیسے مانگتا ہے تو اسے اس طرح کرنا جائز ہے اس میں کوئی شرعی قباحت نہیں کیونکہ عام طور پر جتنے کی چیز بیچنی ہو اس سے زیادہ پیسے بتاکر بارگیننگ کی جاتی ہے تاکہ سامنے والا پیسے کم بھی کروائے تو مطلوبہ ہدف کے مطابق چیز بِک جائے۔ البتہ اگر بروکر پراپرٹی کے مالک سے جھوٹ بولے مثال کے طور پر پراپرٹی بتیس لاکھ کی فروخت کرے اور مالک سے کہے کہ تیس لاکھ کی بیچی ہے تو یہ ناجائز ہے کیونکہ اس میں مالک کو دھوکا دینا اور جھوٹ بولنا لازم آرہا ہے اور یہ رقم بھی اس کے لئے حلال نہ ہوگی۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

بروکر کا پارٹی سے چیز خرید کر آگے بیچنا کیسا؟

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ بروکر کے پاس کو ئی  ایسی پارٹی آتی ہےجسے اپنی پراپرٹی کی صحیح قیمت معلوم نہیں ہوتی توبروکر اس پارٹی سے وہ پراپرٹی سستے دام خرید کر کچھ عرصے بعد مہنگے داموں مارکیٹ میں فروخت کردیتا ہے کیا بروکر کا اس طرح کرنا درست ہے؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب: پوچھی گئی صورت میں بروکر کا پارٹی سے سستے داموں پراپرٹی خرید کر خود مالک بن کر اپنی اس چیز کو مہنگے داموں فروخت کرنا جائز ہے البتہ یہ بات ضروری ہے کہ بروکر پارٹی سے کسی قسم کی غلط بیانی یا جھوٹ سے کام نہ لے مثلاًپارٹی نے بروکر سے پوچھا کہ آج کل میری پراپرٹی جیسی پراپرٹی کی کیا ویلیو چل رہی  ہےتو بروکر جان بوجھ کر وہ ویلیو بتائے جو مارکیٹ ریٹ سے کم ہو یا پھر اس پراپرٹی کے متعلق کہے کہ آج کل  خریدار نہیں آرہے وغیرہ ذالک،اور یہ بات حقیقت کے خلاف ہو تواس طرح بروکر کا پارٹی سے جھوٹ بولنا اسے  دھوکا دینا غیر شرعی عمل ہےجو کہ ہرگز ہرگز جائز نہیں۔ البتہ اگر جھوٹ بولے اور دھوکا دئیے بغیر بروکر کوئی پراپرٹی سستے داموں خرید لے اور قبضہ کرنے کے بعد مہنگے داموں فروخت کرے تو یہ جائز ہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

کمیشن کی فیلڈ میں ایک جدید صورت کا حکم

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں  کہ اگر کوئی شخص کسی بروکر کو کہے کہ آپ میری پراپرٹی جتنے میں چاہیں فروخت کریں مجھے پچاس لاکھ روپے دے دیجئےگا تو اب اگر بروکر پراپرٹی باون لاکھ کی فروخت کرےاور دو لاکھ خود رکھ کر پچاس لاکھ پارٹی کو دے تو کیا یوں دو لاکھ روپے  رکھنا اس بروکرکے لیے  درست ہے؟ جبکہ پارٹی کو بھی سب حقیقت معلوم ہو۔

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب: پوچھی گئی صورت میں بیان کردہ طریقۂ کار درست نہیں اس لئے کہ اُجْرت کا مُتَعَیَّن ہونا ضروری ہے جو کہ پوچھی گئی صورت میں مُتَعَیَّن نہیں ۔

البتہ اگر بروکر کی بروکری مُتَعَیَّن کردی جائے مثلاً بروکر کے ساتھ یہ طے کر لیا جائے کہ اس کام کے اتنے ہزار یا اتنے فیصد بروکری یا کمیشن  تو بطورِ اُجْرت لازمی ملے گی اور ساتھ ہی ساتھ پارٹی بروکر کو یہ بھی اضافی پیشکش کر دے کہ اگر یہ پراپرٹی اتنے فیگر مثلاً پچاس لاکھ سے زیادہ کی بِکتی ہے تو تمام رقم بطورِ انعام آپ کی ہوگی تو ایسا کرنا جائز ہوگا۔وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

*۔۔۔دارالافتا اہلِ سنت نو راالعرفان کھارادر، باب المدینہ  کراچی


Share

دو طرفہ بروکری لینا کیسا؟/ بروکر کاٹاپ مارنا کیسا؟/ بروکر کا پارٹی کو مارکیٹ ویلیو سے زائد قیمت بتانا/ بروکر کا پارٹی سے چیز خرید کر آگے بیچنا کیسا؟

اللہ پاک نے ہمیں اشرفُ المخلوقات بنایا ہے، ہمیں ضروریاتِ زندگی پوری کرنے کیلئے مختلف وسائل عطا فرمائے۔  ہمیں شریعت و سُنَّت کی پیروی کرتے  ہوئے  کَسْب و تجارت میں جائز طریقہ اختِیارکرنا  چاہئے کہ اس سے کاروبار (Business)  میں برکت  ہوتی ہے جبکہ حصولِ مال کے لئے ناجائز ذریعہ بےبرکتی اور اللہ کریم کی ناراضی کا سبب ہے۔ ملے گا وہی جو ہمارے نصیب میں ہے لیکن حرام کمانے سے بچنا ضروری ہے ۔

 دو درہم کی لگام حضرت سیِّدُنا علیُّ المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تعالٰی وجہَہُ الکریم  ایک مرتبہ مسجد کے دروازے پر موجود ایک شخص  کو اپنے خچر کی حفاظت کے لئے  کھڑا کرکے مسجد میں چلے گئے۔ اس نے   خچر کو  وہیں چھوڑا اور   لگام اُتار کر چلتا بنا۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نماز سے فراغت کے بعد خچرکی حفاظت  کے عوض اسے  دو درہم دینے کے لئے جب باہر تشریف  لائے تودیکھا کہ خچر تووہیں کھڑا تھامگر لگام غائب تھی۔ آپ سوار  ہوکر گھر آئے اور غلام کو  دو درہم دے کر لگام خریدنے   کے لئے   بھیجا۔ غلام بازار سے وہی لگام خرید لایا جسے چور نے دو درہم میں  فروخت کیا تھا۔ آپ نے ارشاد فرمایا: بے شک بندہ بے صبری میں خود کو حلال روزی سے محروم کردیتا ہے اور اس کے باوجود اپنے مقدر سے زیادہ حاصل نہیں کرپاتا۔ (المستطرف ،ج1،ص124)

تاجراسلامی بھائیو! سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کے ہوتے ہوئے بھی نہ جانے کیوں ہم پر دولت کمانے کا ایسا  بھوت سوار ہوجاتا ہے کہ ہم نقلی، ملاوٹ  والی اورعیب دار چیز  کو اصلی  اور معیاری ثابت کرنے کےلئے جھوٹ  سے نہیں بچتے ، خریدار کسی عیب (Defect) کی  نشاندہی کرے تو اس عیب کا انکار کرنے اور اُسے یقین دِلانے کے لئے  جھوٹی قَسم سے بھی گُریز نہیں کرتے۔ اپنا بینک بیلنس بڑھانے کے لئے کسی کا حق مارنا پڑے، کسی کو ذلیل کرنا پڑے حتّٰی کہ  کسی کی جان بھی  لینی پڑجائے تو اس کی بھی پروا نہیں کی جاتی ! کاش ہمیں حقیقی توکل نصیب ہو جائے ،فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمہے: اگرتم اللہپر ایسا توکُّل (بھروسا) رکھو جیسا توکُّل کرنے  کا حق ہے تو تمہیں ایسے رزق دیا جائے گا جیسے پرندوں کو دیا جاتا ہے کہ وہ صبح بھوکے  نکلتے ہیں اور شام کو لَوٹتے وقت اُن کا پیٹ بھرا ہوتا ہے۔(ترمذی،ج 4،ص154، حدیث:2351)

ایک زمانہ ایسا آئے گا ہمارے پیارے آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے غیب کی خبر دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ آدمی کو اس بات کی پَروَا  نہ ہوگی کہ جو(مال) اس نے حاصل کیا وہ حرام سے حاصل کیا یا حلال سے؟(بخاری،ج2،ص7، حدیث: 2059) حکیمُ الاُمَّت مفتی احمد یار خا ن علیہ رحمۃ الحنَّان اس حدیثِ پاک  کے تحت  فرماتے ہیں: آخر زمانہ میں لوگ دِین سے بے پروا  ہوجائیں گے، پیٹ کی فکر میں ہر طرح پھنس جائیں گے، آمدنی بڑھانے، مال جمع کرنے کی فکر کریں گے، ہر حرام وحلال لینے پر دلیر ہوجائیں گے جیسا کہ آج کل عام حال ہے۔(مراٰۃ المناجیح،ج 4،ص229) اللہ کریم ہمیں رزقِ حلال کمانے اور کھانے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

عاشقِ مال اِس میں سوچ آخر             کیا عُروج و کمال رکھا ہے؟

تجھ کو مل جائے گا جو قِسمت میں        تیری،رِزقِ حلال رکھا ہے (وسائلِ بخشش مرمم،ص 444)

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

*۔۔۔ذمہ دار  شعبہ بیانات دعوتِ اسلامی،  المدینۃ العلمیہ باب المدینہ کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code