کچھ دن جرمنی میں(چوتھی اور آخری قسط)

  فرینکفرٹ ائیر پورٹ پر چند منٹ میں امیگریشن کاؤنٹر سے فارغ ہوکر  باہر نکلے تو وہاں استقبال کےلئے یوکے اور یورپ سے تشریف لائے ہوئے اسلامی بھائی کافی تعداد میں موجود تھے۔ فرینکفرٹ میں ہی ایک گھر میں رات کے کھانے کی ترکیب تھی۔ کھانے کے بعد وہیں جرمنی اور یورپ میں مسلمانوں کے دینی حالات،ماحول کے اثرات اور دین و ایمان کے تحفّظ پر گفتگو ہوئی جس نے مجموعی طور پر کافی افسردہ کیا، خصوصاً اس خبرنے زیادہ غمزدہ کیا کہ کئی مسلمان عَلانیہ طور پر اسلام چھوڑ کر دہریت اور دوسرے مذاہب اختیار کرچکے ہیں والعیاذ باللہ تعالٰی۔ وہاں سے اپنی رہائش گاہ پہنچے اور چند گھنٹوں کےلئے آرام کیا۔ صبح ناشتے میں بھی اسلام چھوڑ دینے والے افراد کے متعلق گفتگو جاری رہی۔نگرانِ شوریٰ نے کہا کہ کل رات سے ایک فیملی کے ترک ِ اسلام کی خبر سن کر میرا دل غم میں ڈوبا ہوا ہے۔ بہرحال اس کے بعد اگلی منزل کےلئے رواں دواں ہوئے، ایک دن میں تین شہروں میں پہنچنا تھا۔’’ فرینکفرٹ ‘‘ کے قریب ہی جرمنی کے اسلامی بھائیوں نے بھرپور کوششوں سے یورپ میں دعوتِ اسلامی کے سب سے بڑے مدنی مرکز کے لئے جگہ خریدی ہوئی تھی، اس جگہ کا وِزِٹ کیا، طبیعت خوش ہوگئی۔ اِنْ شَآءَ اللہ  عَزَّوَجَلَّ مستقبل میں یہ جگہ دعوتِ اسلامی کا عظیم مدنی مرکز بنے گی۔ وہاں سے آگے روانہ ہوئے تو سارا دن سفر اور ملاقات و بیان میں گزرا۔ پہلی جگہ ’’ڈوزل ڈورف‘‘میں مہاجرین کے  کیمپ میں شامی مسلمانوں سے ملاقات کی ترکیب تھی،جہاں یتیم بچوں کو دیکھ کر دوبارہ دل غمزدہ ہوگیا۔ دوسرے شہر زیگن میں ایک مسجد میں عربی زبان میں شامی مسلمانوں کے درمیان بیان کیا۔ عربی میں بیان ایک کتاب سے دیکھ کر کیا جس میں اپنی طرف سے موقع محل کی مناسبت سے مختلف آیات کو شامل کردیا تھا، بعد ازاں وہیں قریب ہی ایک اسلامی بھائی کے گھر پر نگرانِ شوریٰ نے مہاجرین میں مدنی کام اورخصوصا ًایمان کی حفاظت کے حوالے سے اِقدامات پر مدنی مشورہ کیا۔شامی مہاجروں میں علماء و عوام دونوں ہی شامل تھے جنہوں نے بھر پور دلچسپی کا مظاہرہ کیا ۔ اسلام کی محبت اور اسلامی تعلیمات سے رغبت اُن کے جذبات اور الفاظ سے واضح تھی۔ اپنی نسلوں کے دین و ایمان کے حوالے سے انہوں نے نہایت دردمندی کا مظاہرہ کیا۔ بعض نے کہا کہ’’ہم تو بے وطن ہوکر اپنی اولاد کے دینی مستقبل سے مایوس ہوچکے تھے کیونکہ فکرِ معاش اور دیگر حالات نے ہماری سوچنے، سمجھنے اور کچھ کرنے کی صلاحیتیں ماؤف کردی تھیں، آپ دعوتِ اسلامی والے وہ پہلے لوگ ہیں جو ہمارے اور ہمارے بچوں کے دین و ایمان کی فکرمیں ہم تک پہنچے ہو۔ ہم آپ کا شکریہ ادا کرتے ہیں، آپ ہمارے لئے کچھ کریں۔‘‘ ایک شامی مسلمان نے تونگرانِ شوریٰ سے یہ دِل ہِلا دینے والا جملہ کہا کہ ’’اگر آپ نے ہمارے بچوں کا ایمان بچانے کےلئے کچھ نہ کیا تو قیامت کے دن یہ آپ کی گردن پر ہوگا۔ ‘‘ اِس جملے نے سب کو متاثر کیا۔ پھر اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ مشورے سے طے ہوا کہ یہاں مختلف جگہوں پر مساجد یا اسلامی مراکز بنائے جائیں جہاں دعوتِ اسلامی کے مبلغین جرمنی کے مسلمانوں اور خصوصاً اپنے شامی بھائیوں کی دینی تربیت کے حوالے سے مدنی کام کریں اورپھر اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے نگرانِ شوریٰ نے اپنے بقیہ سفر ِ یورپ میں وہاں کے اسلامی بھائیوں کا اس حوالے سے ذہن بنایااور ہاتھوں ہاتھ ایک مدنی تربیت گاہ کی ترکیب بن گئی۔ اُس مدنی مشورے میں ہونے والی گفتگو سے مسلمانوں کے حالات کی  سنگینی کا بہت واضح اندازہ ہوا۔ کاش ! تمام مسلمان نیکی کی دعوت کی ضرورت و اہمیت کو سمجھیں اور دعوتِ اسلامی کے شانے کے ساتھ شانہ ملا کر چلیں۔ہمارے سفر کی تیسری منزل ’’کوبلنز‘‘تھی جہاں یورپ کے مختلف ممالک کے اسلامی بھائی دو دن کے تربیتی اجتماع میں حاضر تھے۔ اجتماع میں مختلف بیانات ہوئے۔ آخری دن ظہر کی نماز کے بعد راقم اورعبدالحبیب بھائی نے وہیں دارالافتاء اہلسنت کا سلسلہ کیا جس میں حاضرین نے سوالات کئے ۔ اکثر سوالات وہی تھے جو یورپ کے مسلمانوں کو درپیش رہتےہیں جیسے مارگیج پر مکان لینا، ذبیحہ کے شرعی احکام وغیرہ۔ حقیقت ِ حال یہی ہے کہ غیر مسلم ممالک میں خواہش کے باوجود بھی سو فیصد اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنا ایک دشوار امر ہے اور دوسری طرف  ماحول، معاشرہ، حالات اور ملکی تہذیب و ثقافت کے اثرات سے بچنا آسان نہیں۔ سوال جواب کی نشست کے بعد نگرانِ شوریٰ نے تربیتی بیان کیا۔ خدمت ِ اسلام کے جذبے، شرعی احکام سیکھنے اور شریعت کے مطابق ہی دعوت ِ اسلامی کے مدنی کام کرنے کے حوالے سے بیان تھا جس کا مجموعی اثر بہت اچھا رہا۔

دنیاکے دیگر ممالک کی طرح جرمنی میں بھی مسلمانوں کی دعوتِ اسلامی کے مبلغین سے محبت کے مناظر قابلِ دید تھے،  اسلامی بھائی ملاقات، مصافحہ اور دست بوسی کےلئے ہمہ وقت پابرکاب ہی نظر آئے، اور سیلفی کی کثرت کا آپ خود ہی اندازہ لگا سکتے ہیں۔

سفر کے تمام حالات و واقعات سے جس نتیجے تک میں پہنچا ہوں وہ یہ ہے کہ یورپی ممالک میں مسلمان اگرچہ اپنے روزگار کے سلسلے میں گئے لیکن یہ علماء نہیں بلکہ عوام تھے جن میں اکثریت کسی دینی جذبے سے نہیں بلکہ روزگاراور عیش و مستی کے خواب سجائے وہاں پہنچی تھی۔ اُنہوں نے اپنی جوانی تو جیسے تیسے گزار لی لیکن جب وہاں اولاد پیدا ہوئی ، پلی بڑھی اور   وہاں کے ماحول و معاشرے میں ڈھلنے لگی یعنی عمومی بے پردگی سے انتہائی بے حیائی اور عمومی دین کی دوری سے  الحاد و لادینیت تک کے آثارنظر آنے لگے تو اب فکر ہوئی کہ کیا کریں۔ کچھ نے پہلے سے چھوٹی چھوٹی مسجدیں بنارکھی تھیں اور کچھ نے اب بنانا شروع کیں لیکن ابھی تک کا نتیجہ یہ ہے کہ چونکہ اکثر  مساجد میں علماء نہیں بلکہ اپنے آبائی علاقوں سے یا اپنے رشتے داروں میں سے حفاظ کو بلا کر مصلے پر کھڑا کردیا جن کی اپنی دینی معلومات کافی نہیں تھیں تووہ  دوسروں کی رہنمائی اور اسلام کی حقانیت کوکیا بیان کرتے ۔ پھریہ امر بھی قابل ِ توجہ ہے کہ مساجد میں اَئمہ حضرات اگر اپنی ذمہ داری پوری بھی کرتے ہوں تب بھی اسلامی تعلیمات تو ان لوگوں تک ہی پہنچ پائیں گی جو مساجد میں آتے ہیں اورایسے لوگ  قلیل ہیں جبکہ اکثریت تو  صرف نمازِ جمعہ کی جماعت پانے ہی مسجد میں آتی ہے تو ان لوگوں کو دین کون سکھائے اور ان کے دین و ایمان کو کون بچائے؟ یہی وہ خلا ہے جسے اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ دعوتِ اسلامی پُر کرنے کی کوشش کررہی ہے لیکن یہاں عرض کروں گا کہ اِن ممالک میں   مدنی قافلوں کی آمد قدر ِ کفایت نہیں ہے اور دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے  کہ کبھی بھی بیرونِ ملک کے مبلغین سے اتنی بڑی تعداد کی اصلاح نہیں ہوسکتی ، اس کےلئے ضروری ہے کہ ایک طرف دنیا بھر کے مسلمان  مدنی قافلوں میں سفر کرکے ایسی جگہوں پرجائیں اور دوسری طرف خود اِن ممالک کے مسلمان اپنی اور اپنی نسلوں کی آخرت بچانے کےلئےدعوتِ اسلامی کے مدنی ماحول سے وابستہ ہوجائیں اور اپنی اولاد کو بھی  مدنی چینل، ہفتہ وار اجتماع اور مدنی قافلوں کا مسافر بنائیں،خود نیکی کی دعوت دینے والے بنیں اور اپنی اولاد کو بھی ایسا ہی  بنائیں،ورنہ اگرآج اپنی دنیاوی خوشحالی یا اس کی تلاش میں مگن رہ کر مسلمان قوم کے دین کی فکر نہ کی تو آنے والی نسلوں کو شاید اسلام کا نام ہی یاد رہ جائے گااور کچھ نہیں۔

نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے مسلمانو

تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں

اللہتعالیٰ ہم سب کو مدنی ذہن عطا فرمائے۔   

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭ دار الافتاء اہلِ سنّت فیضان مدینہ ، باب المدینہ کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code