حضرت سیّدنا ابو سلمہ عبداللہ بن عبدالاسد رضی اللہ تعالٰی عنہ

فرمانِ مصطفٰے صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم: سب سے پہلے نامَۂ اَعمال سیدھے ہاتھ میں جس ہستی کو دیا جائے گا وہ ابو سَلَمہ ہوں گے۔ (الاوائل للطبرانی، ص: 112) حضرت سیّدنا ابو سَلَمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا اصل نام عبدُاللہ بن عبدُالاسد ہے، آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ اپنی کنیت ”ابو سلمہ “ سے مشہور ہیں، آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی والدہ کا نام بَرّہ بنتِ عبدُالمطلب ہے،آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا تعلق قبیلہ قریش کی شاخ ”بنو مخزوم“ سے ہے۔(جامع الاصول فی احادیث الرسول،ج 13،ص 286)

رسول اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے رضاعی بھائی: حضرت سیّدنا  عبد اللہ بن عبدالاسد رضی اللہ تعالٰی عنہ حضورِ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پھوپھی زاد بھائی ہونے کے ساتھ ساتھ رضاعی(یعنی دودھ شریک) بھائی بھی ہیں، رسولِ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی رضاعی امّی جان حضرت  بی بی ثُوَیْبَہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے آپ کو بھی  دودھ پلایا ہے۔(ایضاً،ج13،ص287)

دولتِ ایمان: آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ دس مَردوں کے بعد دولتِ ایمان سے سرفراز ہوئے۔ (ایضاً)بعض روایات میں ہے کہ آپ اس دن دائرۂ اِسلام میں داخل ہوئے تھے جس دن حضرت سیّدناعثمان بن عَفّان، حضرت سیّدنا ابو عُبیدہ بن الجَرَّاح اور حضرت سیّدنا ارقم رضی اللہ تعالٰی عنہم نے دولت ِ ایمان کو اپنے سینے سے لگایا تھا۔ (شرح ابی داؤدللعینی،ج  6 ،ص33،تحت الحدیث:1550)

صاحبُ الہجرتَین: آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ صاحبُ الہجرتَین (یعنی پہلے حبشہ کی سمت پھر مدینے کی جانب ہجرت کرنے والے )تھے۔ حَبَشہ کی طرف ہجرت کے وقت آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی زوجہ محترمہ حضرت سیّدتنا اُمِّ سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا بھی آپ کے ساتھ تھیں۔

زوجہ محترمہ اور بیٹے سے جدائی اور مدینے روانگی: پیارے آقا، محبوبِِ خدا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی جانب سے مدینے کی طرف ہجرت کا اعلان ہوا تو آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے تاخیر نہ کی اور اونٹ پر کَجاوَہ باندھ کر اپنی زوجہ حضرت اُمِّ سَلَمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا اور بچے کو اونٹ پر سوار کردیا یکایک حضرت اُمِّ سلَمہ کے خاندان والے (یعنی  بنو مُغَیرہ )آگئے اور کہنے لگے کہ ہمارے خاندان کی لڑکی مدینہ نہیں جاسکتی پھر حضرت اُمِّ سَلَمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کو اونٹ سے نیچے اتار دیا،یہ دیکھ کر حضرت ابو سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے خاندان والوں کو طیش آگیا اور انہوں نے حضرت اُمِّ سلَمہ کی گود سے بچے کو چھین لیا اور  کہا کہ یہ بچہ ہمارے خاندان کا ہے اس لئے ہم اس بچے کو ہرگز ہرگز تمہارے پاس نہیں رہنے دیں گے۔ بیوی اور بچے دونوں کی جدائی نے آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ارادے کو ٹوٹنے نہ دیا چنانچہ بیوی اور بچے دونوں کو اللہ  عَزَّ وَجَلَّ کے سِپُرد کر کے آپ نے  تنہا رختِ سفر باندھا اور مدینہ شریف کی جانب چل پڑے۔ بعد میں حضرت سیّدتنا اُمِّ سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا بھی اپنے بیٹے حضرت سلمہ کے ساتھ ہجرت کرکے بحفاظت آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس مدینہ منوّرہ پہنچ گئیں۔ (روض الانف،ج2،ص291 ملخصاً)

مدینے میں آمد: حضرت ابو سَلَمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ دس محرم الحرام کو مدینہ منوّرہ کی نورانی فضاؤں میں داخل ہوئے۔ (طبقات ابن سعد،ج 3،ص181) بعض روایتوں کے مطابق مدینے میں حضرت سیّدنا  مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالٰی عنہ اور حضرت سیّدنا عبد اللہ بن   اُمِّ مکتوم رضی اللہ تعالٰی عنہ کے بعد آنے والے آپ تیسرے مہاجر صحابی تھے۔ (انساب الاشراف،ج 1،ص257)

مجاہدانہ کارنامے اور شہادت: حضرت ابو سلَمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نہایت بہادر اور قائدانہ صلاحیتوں کے مالِک  تھے، ماہِ رمضان سن 2 ہجری غزوۂ بدر کے موقع پر بےجگری سے دشمنوں کا مقابلہ کیا۔3 ہجری ماہ ِشوال غزوۂ اُحد میں آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے لشکرِ اسلام کے مَیْسَرَہ (بائیں حصّے) کی قیادت کے فرائض سر انجام دئیے(سیرتِ مصطفیٰ،  ص 256 ملخصاً) اور بازو پر تیر لگنے سے شدید زخمی ہوئے ایک ماہ تک مسلسل علاج جاری رہا زخم تقریباً بھر چکا تھا۔ (طبقات ابن سعد،ج 3،ص 182)

یکم  محرم الحرام سن 4 ہجری میں حضورِ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک معرکہ کیلئے آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا انتخاب فرمایا اور آپ کی قیادت میں ڈیڑھ سو(150) مجاہدین کو روانہ فرمایا۔ 29 دن  کے بعد یہ قافلہ مدینے لوٹ کر آیا تو آپ کا زخم ہرا ہوچکاتھا علاج مُعَالَجَہ شروع ہوا مگر صحت یاب نہ ہوسکے آخر کار 8 جُمادَی الاُخریٰ سن 4 ہجری میں اس جہان ِ فانی سےکوچ فرمایا۔(سبل الہدیٰ والرشاد،ج11،ص187 )

نظر روح کے پیچھے جاتی ہے: بوقتِ وفات آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی آنکھیں کھلی رَہ گئی تھیں، رحمتِ عالم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےآپ کی آنکھوں کوبند کیا اورفرمایا: روح جب قبض کرلی جاتی ہے تو نظر اس کے پیچھے جاتی ہے۔ (مسلم، ص357، حدیث: 2130)

خیر ہی کی دعا کرو: بعض رشتے داروں نے رونا پیٹنا شروع کیا تو حضور اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اپنے متعلق خیر ہی کی دعا کرنا کیونکہ فرشتے تمہارے کہے پر آمین کہتے ہیں۔ (ایضاً)

رحمتِ عالم کی دعائیں: پھر پیارے آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے آپ کے لئے یوں دُعا فرمائی : الٰہی!  ابوسلمہ کو بخش دے اور ہدایت والوں میں ان کا درجہ بلندفرما، ان کے پَس ماندگان میں ان کا تو خلیفہ ہو، یاربَّ العٰلَمِین !ہماری اور ان کی مغفِرت فرما اور ان کی قَبْر میں روشنی اور وُسعَت دے۔(ایضاً)

اولاد: حضرت سیّدتنا اُمِّ سلَمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے بطن سے آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دو لڑکے سلمہ  اور عمر اور دو لڑکیاں رُقَیَّہ اور زینب رضی اللہ تعالٰی عنہم پیدا ہوئیں۔ (سبل الہدیٰ،ج11،ص187)

روایتِ حدیث: آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ایک ہی روایت منقول ہے، چنانچہ حضرت اُمِّ سلَمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں کہ ایک دن حضرت ابو سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ بارگاہِ رسالت سے واپس لوٹے اور فرمانے لگے کہ میں نے پیارے آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے ایک فرمان  سنا ہے جس نے مجھے بے حد خوش کردیا ہے ، میرے محبوب آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایاہے: تم میں سے کسی کو مصیبت پہنچے تو اسے چاہیے کہ  وہ اِسْتِرجَاع (یعنی اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ ہم اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے مال ہیں اور ہم کو اسی کی طرف پھرنا )کہے پھر کہے: اَللّٰهُمَّ اٰجُرْنِي فِي مُصِيْبَتِي وَاخْلُفْ لِي خَيْرًا مِّنْهَا اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ! مجھے میری مصیبت پر اجر عطا فرما اور اس سے بہتر بدلہ عطا فرما۔تَو اس دعا کے سبب اُسے بہتر بدلہ دیا جاتا ہے۔ حضرت سیّدتنا اُمِّ سلَمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے اس دُعا کو یاد کرلیا۔(مسند احمد،ج5،ص505، حدیث: 16344)

اچھا بدلہ کیسے ملا؟: آپ رضی اللہ تعالٰی عنہا مزید فرماتی ہیں کہ جب حضرت ابو سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا انتقال ہوا تو میں  یہ دعا پڑھتی اور  دل میں کہتی کہ ابوسلَمہ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ سے بہتر مسلمان کون ہوگا ؟ کیونکہ انہوں نے رسولُ  اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی طرف اپنے اہل ِخانہ کے ساتھ سب سے پہلے (مکہ سے مدینے ) ہجرت کی تھی۔ پھر اللہ عَزَّوَجَلَّ نے رسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی صورت میں مجھے ان سے بہتر بدلہ عطا فرمایااوررسولُ  اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے میری طرف  نکاح کا پیغام بھیج دیا۔ (مسلم ، ص356، حدیث: 2126 ملخصاً)

یوں حضرت سیّدتنا اُمِّ سلَمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا پیارے آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے نکاح میں آگئیں۔

اللہ تعالیٰ کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بےحساب مغفرت ہو۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

*مدرس مرکزی جامعۃ المدینہ، فیضانِ مدینہ، باب المدینہ کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code